پاکستان کے 78 فیصد گھرانوں کو قدرتی گیس تک رسائی حاصل نہیں، رپورٹ

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2022
گیس دنیا بھر میں استعمال ہونے والی توانائی کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے —فائل فوٹو: شٹراسٹاک
گیس دنیا بھر میں استعمال ہونے والی توانائی کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے —فائل فوٹو: شٹراسٹاک

پاکستان میں 78 فیصد گھرانوں کو قدرتی گیس تک رسائی حاصل نہیں ہے جبکہ ملک میں اس کی تلاش اور پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق او جی ڈی سی ایل نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کے اندرون ملک تیل کے ذخائر 2025 تک ختم ہو جائیں گے، گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ 15 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، سیاسی طور پر گیس مختص کرنا اور اجارہ دارانہ کاروباری کارروائیاں رکاوٹیں ہیں۔'

یہ مشاہدات پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) نے 'پاکستان میں گیس کے بحران' پر اپنی تازہ ترین تحقیقی بریف میں بیان کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں قدرتی گیس کی پیداوار میں کمی

اس میں کہا گیا ہے کہ گیس دنیا بھر میں استعمال ہونے والی توانائی کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے تاہم عالمی گیس کی کھپت میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

یہ 44:56 کے تناسب سے درآمدی اور مقامی وسائل کے ذریعے اپنی توانائی کی طلب کو پورا کرتا ہے، قدرتی گیس اور درآمد شدہ ایل این جی ملک کے موجودہ توانائی کے مرکب بشمول بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والی گیس کے وسائل میں 40 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں پاکستان میں گیس کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے تاہم گیس کی تلاش اور پیداوار میں کمی آئی ہے اور ایل این جی آپریشنل اور ریگولیٹری فریم ورک بھی کمزور ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں قلت اور سپلائی کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔

پی آئی ڈی ای کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق 15 گیس ایکسپلوریشن اور پروڈکشن کمپنیوں نے ملک بھر میں پھیلی 55 فیلڈز میں کام کیا۔

گیس کی تقسیم اور ترسیل بنیادی طور پر دو سرکاری کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور وہ یہ چلاتی ہیں جس میں ایک سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل) اوردوسری سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی ایل) ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت سے گیس کے شعبے میں اصلاحات، ٹرانسمیشن فرم کے قیام کا مطالبہ

پاکستان میں گیس کی تلاش/پیداواری صنعت اور گیس کی تقسیم/ٹرانسمیشن کی صنعت میں مسابقت کا فقدان ہے۔

تحقیق میں کہا گیا کہ او جی ڈی سی ایل نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کے اندرون ملک تیل کے ذخائر 2025 تک ختم ہو جائیں گے، تاہم گے اگر 2030 تک گیس کی موجودہ سطح پر طلب کو محدود کر دیا جائے تو موجودہ ذخائر زیادہ سے زیادہ 15 سال تک رہیں گے'۔

پی آئی ڈی ای کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں 78 فیصد گھرانوں کو قدرتی گیس تک رسائی نہیں ہے حالانکہ گھریلو شعبے میں قدرتی گیس کی کھپت میں گزشتہ برسوں کے دوران تقریباً 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ان گھرانوں کو گیس کی فراہمی کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہے کیوں کہ گھروں کو گیس کی سپلائی کی لاگت انڈسٹری یا پاور سیکٹر کو سپلائی کی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ گیس مختص کرنے کی پالیسی زیادہ سے زیادہ ویلیو ایڈیشن کے مقصد کی بجائے سیاسی ترجیحات پر مبنی رہی ہے، گیس کی کم قیمتوں اور غیر مؤثر گیس مختص کرنے نے زیادہ مطالبات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی گیس کے نرخ میں 37 فیصد تک اضافے کی تجویز

30.6 بلین کیوبک میٹر قدرتی گیس کے ساتھ، پاکستان کا گیس کی عالمی پیداوار میں 0.8 فیصد حصہ ہے۔

پاکستان میں گیس کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن غیر مؤثر تقسیم کے باعث ملک کو گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

بریف میں بتایا گیا کہ ملک کے بڑے علاقے سیکیورٹی خدشات اور امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے غیر دریافت شدہ ہیں۔

مثال کے طور پر بلوچستان کا پشین طاس ایک قیمتی بلاک سمجھا جاتا ہے، تاہم امن و امان کے مسئلے کی وجہ سے اس بیسن میں گیس کی تلاش کی کوئی سرگرمی نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں