کراچی: سیوریج لائن سے ملنے والے پولیو کے نمونے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

12 ستمبر 2022
یہ نمونہ اس سال اگست میں کراچی کے علاقے لانڈھی کے بختاور گوٹھ میں سیوریج لائن سے حاصل کیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ نمونہ اس سال اگست میں کراچی کے علاقے لانڈھی کے بختاور گوٹھ میں سیوریج لائن سے حاصل کیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کی نیشنل پولیو لیبارٹری نے سندھ میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ 1 کے لیے ماحولیاتی نمونے کی جانچ کے پہلے کیس کی اطلاع دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ نمونہ اس سال اگست میں لانڈھی کے بختاور گوٹھ میں سیوریج لائن سے حاصل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: افسوسناک ہے کہ ہم اب تک پولیو کو ختم نہیں کرسکے، شہباز شریف

کراچی سے پچھلا مثبت نمونہ مئی 2021 میں رپورٹ ہوا تھا جبکہ ضلع سے آخری وائلڈ پولیو وائرس کا کیس جون 2020 میں رپورٹ ہوا تھا۔

اب تک اس سال ملک کے مختلف حصوں سے اکٹھے کیے گئے 22 ماحولیاتی نمونے پولیو وائرس کے لیے مثبت پائے گئے ہیں جن میں سے خیبرپختونخوا سے 13، پنجاب سے سات اور سندھ اور اسلام آباد سے ایک ایک نمونہ اکٹھا کیا گیا۔

2021 میں ملک میں 65 مثبت ماحولیاتی نمونے پائے گئے تھے، گزشتہ ماہ شمالی وزیرستان سے ایک 17 ماہ کے بچے کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد ملک میں 15واں وائلڈ پولیو وائرس کیس رپورٹ ہوا۔

حکام کے مطابق ماحول سے پولیو وائرس کی شناخت سے منسلک خطرات کو کم کرنے کے لیے اگست میں ایک فوری رسپانس راؤنڈ کا نفاذ کیا گیا تھا، اس کے علاوہ حالیہ مثبت ماحولیاتی نمونوں کے ساتھ اضلاع میں توسیعی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔

فی الحال جنگلی پولیو وائرس دو ممالک پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’برطانیہ میں پایا گیا پولیو وائرس 22 ممالک میں موجود ہے‘

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان دو ممالک سے باہر جنگلی پولیو وائرس ٹائپ-1 کا پتہ لگانا اس بیماری کے بین الاقوامی پھیلاؤ کے مسلسل خطرے کو ظاہر کرتا ہے یہاں تک کہ دنیا کا ہر گوشہ اس وائرس سے پاک نہ ہو جائے، پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے اور اسے صرف حفاظتی ٹیکوں سے روکا جا سکتا ہے۔

اس سال اب تک پاکستان میں پولیو وائرس کے 17 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، گزشتہ سال نو کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

دریں اثنا، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہیں بتایا گیا کہ صوبے بھر میں بالخصوص سپر ہائی رسک اور ہائی رسک یونین کونسلز میں خصوصی اقدامات، حفاظتی ٹیکوں کی اضافی سرگرمیوں اور ہیلتھ کیمپوں کے انعقاد کی وجہ سے سندھ میں مسلسل مس ہونے والے بچوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں