انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، عمران خان اور محمود خان پر 50 ہزار روپے جرمانہ

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2022
ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے 6 ستمبر کو ریلی کے انعقاد کے بعد 7 ستمبر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا تھا —فوٹو: پی آئی ڈی/ڈان
ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے 6 ستمبر کو ریلی کے انعقاد کے بعد 7 ستمبر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا تھا —فوٹو: پی آئی ڈی/ڈان

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 6 ستمبر کے جلسے میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سابق وزیراعظم اور پارٹی چئیرمین عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور دیگر وزرا و مشیروں سمیت کابینہ کے متعدد ارکان پر 50، 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ مطابق این اے-31 پشاورمیں ہونے والے پی ٹی آئی جلسے میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن کے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر شہاب الدین نے جرمانہ عائد کیا۔

انہوں نے عمران خان، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور دیگر وزرا تیمور خان جھگڑا، اشتیاق عمر، شوکت یوسفزئی اور کامران خان بنگش، انور زیب خان، محمد اقبال وزیر اور وزیر اعلیٰ کے معاونین خلیق الرحمٰن اور وزیر زادہ پر الگ الگ جرمانے عائد کیے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘سیکیورٹی خدشات’: عمران خان کو لاہور جلسے سے ویڈیولنک خطاب کی تجویز

ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے 6 ستمبر کو ریلی کے انعقاد کے بعد 7 ستمبر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔

ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کا کہنا تھا کہ ویڈیوز، تصاویر اور نیوز کلپ میں موجود شواہد کی جانچ پڑتال اور مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کے بعد ثابت ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، کابینہ کے ارکان، مشیروں اور معاونین خصوصی سمیت متعدد سرکاری عہدیداروں نے ضابطہ اخلاق کے پیراگراف نمبر 17 (بی) کی خلاف ورزی کی ہے۔

ضابطہ اخلاق کے پیراگراف نمبر 17 (بی) میں کہا گیا ہے کہ ’عوامی عہدیدار بشمول صدر، وزیر اعظم، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، تمام اسمبلیوں کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، گورنر، وزیر اعلیٰ، صوبائی وزرا اور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے مشیر کسی بھی امیداوار کے جلسے میں شرکت نہیں کرسکتے۔

ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا کہ پشاور جلسے میں سرکاری وسائل بھی استعمال کیے گئے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو پریڈ گراؤنڈ، پی ڈی ایم کو پشاور موڑ پر جلسہ کرنے کی اجازت مل گئی

ضابطہ اخلاق کے پیراگراف 30 میں لکھا ہے کہ ’وفاق اور صوبوں میں ایگزیکٹو اتھارٹی اور مقامی حکومت کے منتخب نمائندے مخصوص امیدوار یا سیاسی جماعت کے انتخابات کے لیے یا کسی پارٹی کا امیدوار غیر ضروری اثر و رسوخ استعمال کرکے سرکاری وسائل کا استعمال نہیں کرسکتے۔

حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ ’الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 234 (3) کے تحت الیکشن رولز 2017 کے ضابطے نمبر 171 (3) میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کے دستخط شدہ تحریری حکم نامے میں عمران احمد اور پشاور کے این اے 31 کے امیدوار پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔‘

شہاب الدین نے جواب دہندہ کے وکیل کے دلائل بھی سنے، وکیل کا تحریری جواب میں کہنا تھا کہ مذکورہ ریلی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ماضی وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی ریلیوں کا تسلسل ہے اس لیے حالیہ ریلی کو ضمنی انتخابات کی مہم کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جلسے کا مقام پشاور (V) این اے 31 کی حدود میں نہیں آتا۔

وکیل نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ریلی کے انتظامات یا عوامی عہدیداروں کی شرکت کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کو میرے فریق کے ساتھ منسوب نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور جلسہ، سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا

ان کا کہنا تھا کہ جلسہ کرنا الیکشن کے تمام امیداواروں کا آئینی حق ہے۔

پشاور جلسے سے ایک روز قبل ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر نے گورنر، وزیر اعلیٰ، صوبائی وزرا اور مشیروں سمیت حکومتی عہدیدار کو ریلی میں شرکت نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ریلی میں شرکت کی تو یہ عمل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگی اور ان سب کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں