افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر ایک سال مکمل، اقوام متحدہ کا اظہار مذمت

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2022
طالبان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں پر تعلیم پر پابندی صرف عارضی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
طالبان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں پر تعلیم پر پابندی صرف عارضی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو افسوسناک اور شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک بھر میں لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول دوبارہ کھولیں تاکہ خواتین تعلیم حاصل کر سکیں۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اگست میں طالبان نے اقتدار حاصل کرنے کے چند ہفتے کے بعد 18 ستمبر 2021 کو لڑکوں کے لیے ہائی اسکول دوبارہ کھول دیے تھے لیکن لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول پر پابندی لگا دی تھی، کچھ ماہ بعد 23 مارچ کو وزارت تعلیم نے لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن چند گھنٹوں بعد طالبان قیادت نے دوبارہ اسکول بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اگر لڑکیوں کیلئے تعلیم کے دروازے بند رہے تو دنیا افغانستان سے منہ موڑ لے گی، اقوام متحدہ

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کے قائم مقام سربراہ مارکس پوٹزل نے کہا کہ آج بھی ملک بھر میں لاکھوں لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، افغانستان میں لڑکیوں پر تعلیم پر پابندی شرمناک اور انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ تعلیم پر پابندی لڑکیوں کی نسل اور افغانستان کے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہے، ایسی پابندی کی دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے طالبان پر زور دیا کہ طالبان قیادت لڑکیوں پر پابندی ختم کریں۔

انہوں نے ٹوئٹر پرایک بیان میں کہا کہ ’افغانستان نے ایک سال میں تعلیم کے مواقع ضائع کیے ہیں، یہ ایک سال کبھی واپس نہیں آئے گا، لڑکیوں کا تعلق اسکول سے ہے، طالبان کو انہیں اسکول میں واپس آنے کی اجازت دینی چاہیے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا قبضہ: افغانستان میں کیا ہورہا ہے اور اب آگے کیا ہونے جارہا ہے؟

ابتدائی طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو عارضی قرار دینے والے متعدد طالبان عہدیداروں نے لڑکیوں کی تعلیم کی حوالے سے کئی بہانے تلاش کیے، کبھی فنڈز کی کمی کا عذر پیش کیا تو کبھی وقت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

رواں ماہ کے اوائل میں مقامی میڈیا کے مطابق وزیر تعلیم نور اللہ کا کہنا تھا کہ ’یہ افغانستان کا ثقافتی مسئلہ ہے، کئی دیہی لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی نو عمر بیٹیاں اسکول جائیں‘۔

12ویں جماعت کی طالبہ ’کوثر‘ نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے فرضی نام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں لڑکیوں کے ہائی اسکول جانے پر عائد پابندی کا ایک سال مکمل ہونے پر وہ بہت مایوس ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں