ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2022
دارالحکومت تہران میں بھی پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز
دارالحکومت تہران میں بھی پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز

ایران میں پولیس حراست کے دوران نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ملک بھر میں جاری مظاہروں میں چھٹے روز مزید شدت آگئی جہاں تہران اور کئی دیگر شہروں میں مظاہرین نے پولیس اسٹیشنز اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے 'غیر موزوں لباس' کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران وہ کومہ میں چلی گئی تھیں جہاں وہ انتقال کر گئیں۔

حکام نے کہا کہ وہ 22 سالہ خاتون کی موت کی وجوہات کی تحقیقات شروع کریں گے، مہسا امینی کی موت نے عوام میں شدید غم و غصے اور ایران میں 2019 کے بعد بدترین مظاہروں کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک

شمال مشرقی علاقے میں مظاہرین نے ایک پولیس اسٹیشن کے قریب مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے نعرے لگائے کہ 'ہم مر جائیں گے، ہم مر جائیں گے لیکن ہم ایران کو واپس لائیں گے' کے نعرے لگائے۔ بعد ازاں اس پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی۔

مہسا امینی کے آبائی صوبے کردستان سے بدامنی پھیلتے ہی دارالحکومت تہران میں ایک اور پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا۔

حالیہ احتجاجی لہر کے باعث ایران کے حکمرانوں کو پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے 2019 کے احتجاج جیسی صورتحال کا خدشہ ہے جو اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے خونریز احتجاج تھا، خبر رساں ادارے رائٹرز نے 1500 افراد کی ہلاکت رپورٹ کی تھی۔

مظاہرے زیادہ تر ایران کے کرد آبادی والے شمال مغربی علاقوں میں جاری ہیں لیکن اب یہ سلسلہ دارالحکومت اور ملک بھر کے کم از کم 50 شہروں اور قصبوں تک پھیل چکا ہے جب کہ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔

کرد حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ہینگاؤ کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز 3 مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد 10 ہوگئی۔

رائٹرز ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کر سکا جب کہ حکام نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کو مارنے کی خبروں کی تردید کی۔

مزید پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

ہینگاؤ، شہریوں اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن آبزرویٹری نیٹ بلاکس کے اکاؤنٹس کے مطابق مظاہروں میں کمی کے کوئی آثار نہ نظر آنے پر حکام نے انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔

مہسا امینی کی موت نے اسلامی جمہوریہ میں آزادیوں اور اقتصادی پابندیوں سے دوچار ہونے والے مسائل پر پورے ایران میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے جب کہ خواتین نے بھی احتجاجی مظاہروں میں بھرپور حصہ لیا ہے۔

خیال رہے کہ مہسا امینی کی موت اخلاقی پولیس کی حراست میں کوما میں جانے کے بعد ہوئی، یہ پولیس ایران میں سخت قوانین نافذ کرتی ہے جن کے تحت خواتین کو اپنے بال ڈھانپنے اور عوامی مقامات پر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننا لازم ہوتا ہے۔

مہسا امینی کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو صحت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا تاہم پولیس حراست کے دوران ان کی ٹانگوں پر زخم آئے، انہوں نے پولیس کو اپنی بیٹی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ان کی موت کے بعد کردستان میں شروع ہونے والے مظاہرے شمال مغربی ایران کے دیگر صوبوں تک بھی پھیل گئے۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے کئی شہروں میں 'چھوٹے پیمانے پر نکالی گئی ریلیوں' کی اطلاع دی جس میں مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگائے، پولیس کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔

دوسری جانب سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں ایران بھر کے صوبوں میں مظاہرے دیکھے گئے جس میں کئی ایسے علاقے بھی شامل ہیں جو اب تک بدامنی سے متاثر نہیں تھے، تاہم رائٹرز ان ویڈیوز کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں