سعودی شہزادے کی ثالثی، روس کے ساتھ 'قابل قدر' تعلقات کا منہ بولتا ثبوت

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2022
عالمی رہنماؤں نے تیل کی مزید پیداوار کا مطالبہ کرنے کے لیے ریاض جانے کا راستہ اپنایا ہے—تصویر: رائٹرز
عالمی رہنماؤں نے تیل کی مزید پیداوار کا مطالبہ کرنے کے لیے ریاض جانے کا راستہ اپنایا ہے—تصویر: رائٹرز

سعودی عرب نے یوکرین میں پکڑے گئے غیر ملکی جنگجوؤں کی رہائی کو یقینی بنا کر سفارتی فتح حاصل کرلی جو یوکرین جنگ میں ماسکو کو تنہا کرنے کے خواہش مند مغربی شراکت داروں کے لیے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے روس کے ساتھ اتحاد کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی ولی عہد کا یہ اقدام، دانستہ یا غیر دانستہ طور پر جمال خاشقجی کے 2018 کے قتل کے بعد ان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کے بعد بین الاقوامی بحالی کے قریب لے جانے میں مدد کرتا ہے۔

محمد بن سلمان کی ثالثی کے باعث روس نے یوکرین میں پکڑے گئے 10 غیر ملکیوں کو رہا کر دیا، جن میں 5برطانوی اور 2 امریکی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شہزادہ طلال کی روس میں رواں سال 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا انکشاف

یہ اقدام، بظاہر شہزادہ محمد بن سلمان کے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ احتیاط سے پروان چڑھائے گئے تعلقات کی وجہ سے ممکن ہوا اور ایسے وقت ہوا کہ جب دوسری طرف ترکی کی ثالثی میں 125 یوکرینی جبکہ 55 روسی اور ماسکو یوکرینین حامی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔

امریکا میں رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ کے ماہر سیاسیات کرسٹیان الریچسن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور روس کے درمیان کام کرنے والے تعلقات ثالث کے انتخاب میں ایک اہم عنصر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس ثالثی کی منظوری اور نتائج کی فراہمی سے، محمد بن سلمان اپنے آپ کو علاقائی سیاست دان کا کردار ادا کرنے کے قابل اس انداز میں پیش کر سکتے ہیں جو کہ ایک متاثر کن اور مداخلت کرنے والے رہنما کے طور پر ولی عہد شہزادے کے بیانیے کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کا اقدام انسانی بنیادوں پر اٹھایا گیا، انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ولی عہد اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے اس میں شامل ہوئے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب، روس سے ’ایس 400‘ ڈیفنس سسٹم، دیگر ہتھیار خریدے گا

انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس تنازع کا مذاکرات کے ذریعے حل دیکھنا چاہتا ہے اور ریاض اس نتیجے کو محفوظ بنانے میں مدد کرنے کی کوشش کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ولی عہد اپریل سے صدر پیوٹن کے ساتھ قیدیوں کے معاہدے پر کام کررہے تھے، جب وہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے دورے کے بعد 5 برطانوی شہریوں کے معاملے کو 'سمجھ' گئے تھے۔

شہزادہ فیصل نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کی شاہی عظمت صدر پیوٹن کو قائل کرنے میں کامیاب رہی کہ یہ ایک انسانی ہمدردی کا اشارہ ہے جو قابل قدر ہے اور اس طرح ہم نے یہ نتیجہ حاصل کیا۔'

رہا ہونے والے قیدیوں میں ایک کروشیائی، ایک مراکشی اور ایک سویڈش شہری شامل تھے، جنہیں سعودی طیارے سے ریاض لے جایا گیا جہاں حکام ان کے استقبال کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر، سعودی فرمانروا کا توانائی کی فراہمی، ایران اور یمن جنگ پر تبادلہ خیال

حکام نے بتایا کہ امریکی شہری 39 سالہ الیگزینڈر ڈروک اور 27 سالہ اینڈی ہیون، دونوں الاباما سے تعلق رکھتے ہیں، چند روز میں سعودی عرب سے روانہ ہوجائیں گے۔

واشنگٹن اور ماسکو دونوں کے لیے دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ سعودی عرب کی اہمیت ایک ایسے وقت میں بڑھی ہے جب یوکرین میں روس کی جنگ عالمی توانائی کی منڈیوں کو تباہ کر رہی ہے۔

عالمی رہنماؤں نے تیل کی مزید پیداوار کا مطالبہ کرنے کے لیے ریاض جانے کا راستہ اپنایا ہے۔

تاہم سعودی عرب نے روس کو تنہا کرنے کی کوشش میں شامل ہونے کے لیے بہت کم امکان ظاہر کیا، اس نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے گروپ اوپیک میں اور ویسے بھی روس کے ساتھ اپنے تعاون میں اضافہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں