ٹینس کے عالمی چیمپئن راجر فیڈرر کے شاندار عہد کا اختتام اتنی خاموشی سے ہوگا کبھی سوچا نہیں تھا۔ مجھ سمیت پوری دنیا میں موجود ان کے مداح ان کے سبکدوش ہونے کے بعد افسردہ ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ٹینس کے کھیل کی وجہ سے ہی ہمارے گھر نیا ٹیلی وژن آیا تھا۔ میرے والد صاحب ہاکی اور ٹینس کے دلدادہ تھے بلکہ ہاکی تو ان کے خون میں شامل تھی۔

والد گرامی تقسیم سے قبل بھارت کی علی گڑھ یونیورسٹی کی چیمپئن ٹیم کے رکن بھی رہ چکے تھے، اس وجہ سے گھر میں کھیل کی ہی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اس وقت گھر میں ٹینس اسٹار پیٹ سمپراس اور آندرے آگاسی کا بڑا چرچہ رہتا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب ہم کوئٹہ کینٹ میں رہائش پزیر تھے اور وہاں کھیلوں کی تقریباً تمام ہی سہولیات میسر تھیں جن میں بہترین ٹینس کورٹ بھی شامل تھا، مگر وہاں کھیلنے کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوا کرتی تھی اور اگر کبھی اجازت مل جاتی تو ہم ٹینس کھیل کر خوب مزے اڑایا کرتے تھے۔

جب وہاں کوئی اچھا شارٹ کھیلتا تو آواز آتی کلاسیکل آگاسی شاٹ مارا ہے تو کوئی پیٹ سمپراس بنا ہوتا تھا۔ میرا بچپن یونہی کھیلتے کودتے گزر گیا اور پھر 1998ء میں ٹینس کے فلک پر ایک ایسا ستارہ ابھرا جس نے اپنے اسٹائلش کھیل سے مداحوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ کنگ آف ٹینس راجر فیڈرر تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ فیڈرر نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور بال بوائے کیا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ عالمی سطح پر 1998ء میں نمودار ہوئے جب ان کی عمر محض 16 سال تھی اور اسی سال کے آخر میں وہ جونیئر ومبلڈن چیمپئن بن گئے تھے۔

ابتدائی لمحات میں انہوں نے مختلف میچ تو ضرور جیتے مگر وہ کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیت پارہے تھے لیکن مسلسل کوششوں کے نتیجے میں وہ 2001ء میں اپنا پہلا ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

انہوں نے اپنے پورے کیریئر میں 369 فتوحات سمیٹی اور ٹینس رینکنگ میں دوسرے نمبر پر موجود سربیا کے نواک جوکووچ اب بھی ان سے 35 فتوحات پیچھے ہیں۔

اس سے قبل یہ ریکارڈ 233 فتوحات کے ساتھ امریکا کے جمی کونورز کے پاس تھا جو فیڈرر نے 2012ء میں توڑ دیا تھا۔

راجر فیڈرر کو اپنے کھیل پر اتنی مضبوط گرفت حاصل تھی کہ انہیں پکڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن تھا۔ فیڈرر کی خود اعتمادی ان کی شخصیت کا اہم حصہ رہی ہے۔ میرے خیال سے انہیں صدی کے بہترین ٹینس اسٹار کا لقب دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

اکثر ماہرین انہیں کتابی کھلاڑی کا درجہ دیتے ہیں یعنی جیسا ٹینس بک میں اس کھیل کے بارے میں لکھا ویسے ہی انہیں پایا گیا، تبھی تو فیڈرر کو پرنسپل آف ٹینس قرار دیا جاتا ہے۔ فیڈرر کا ایک کمال یہ بھی رہا کہ انہوں نے ہمیشہ ایسے ٹھنڈے دماغ سے کھیلا کہ جذبات اثرانداز نہیں ہوئے۔ انہیں اپنے اعصاب پر ایسا کنٹرول حاصل تھا کہ غصے میں صرف مٹھی بند کرتے اور غصہ ٹھنڈا ہونے پر ریکٹ تھامتے اور میچ جیت جاتے، یہ انداز کسی دوسرے کھلاڑی میں دکھائی نہیں دیا۔

مجھے فیڈرر کے منفرد اور اسٹائلش کھیل نے خاصہ متاثر کیا۔ لمبے لمبے بال، ماتھے پر بندھا بینڈ، ڈھیلا ڈھالا اور ہیڈ ڈاؤن اسٹائل اور نرم لہجے نے مجھے ان کا ڈائے ہارڈ فین بنادیا تھا۔ انہوں نے جب اپنا پہلا میچ جیتا تو محض دونوں ہاتھوں کو بلند کیا، انہیں شاید اندازہ تھا کہ یہ ان کی جیت کا پہلا قدم ہے اور وہ نظارہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس میچ میں مجھے ان کے بیک ہینڈ شاٹس بہت پسند آئے۔ وہ جب بھی یہ شاٹ کھیلتے اور کلائی کو ہلکا سا جھٹکا دیتے تو بس وہیں سے بال سوئنگ ہوتی ہوئی حریف کے پاس جاتی جسے کھیلنے میں خاصی پریشانی ہوتی۔

یہ انداز میں نے ہر ایک کھلاڑی میں نہیں پایا، درحقیقت انہوں نے ٹینس کی دنیا کا منظرنامہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ میں فیڈرر کے میچوں کو ٹی وی پر لائیو دیکھنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا چاہے وہ رات کے کسی بھی پہر میں کیوں نہ ٹیلی کاسٹ ہورہے ہوں۔

میں نے فیڈرر کو بڑا ہمدرد پایا۔ انہوں نے کسی میچ میں بھی نظم و ضبط کی خلاف ورزی نہیں کی اور ایک جینٹلمین کی طرح مقابلوں میں حصہ لیا۔ کئی مقابلوں میں وہ مشکل صورتحال سے دوچار ہوئے مگر فیڈرر کی ریورس شارٹ پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ کسی بھی مشکل لمحے سے اپنے آپ کو نکال لیتے تھے۔ کسی آرٹسٹ کی طرح کا انداز ہی انہیں مداحوں میں مقبولیت کی بلندیوں پر لے گیا۔

ویسے تو فیڈرر 310 دن تک ٹینس کی دنیا کے بادشاہ رہے ہیں مگر اس میں حیران کن امر یہ ہے کہ 2004ء سے 2008ء تک وہ مسلسل 273 دنوں تک ٹینس رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن پر براجمان رہے اور ٹینس کی تاریخ میں کوئی بھی کھلاڑی لگاتار اتنے دن نمبر ون پوزیشن پر قابض نہیں رہا۔

گرینڈ سلیم کی بات کریں تو 2008ء تک سب سے زیادہ 13 اعزاز کا ریکارڈ پیٹ سمپراز کے پاس تھا جو 2009ء میں ومبلڈن جیت کر فیڈرر نے توڑ دیا اور اگلے 13 سالوں تک یہ اعزاز فیڈرر کے پاس ہی رہا۔ 2020ء میں رافیل نڈال 20 گرینڈ سلیم جیت کر فیڈرر کے برابر آگئے اور پھر 2022ء میں انہوں نے آسٹریلین اور فرنچ اوپن جیتا اور 22 گرینڈ سلیم کے ساتھ انہوں نے فیڈرر کو پیچھے چھوڑ دیا۔

ان کی فٹنس اس قدر شاندار تھی کہ انہوں نے اپنے کیریئر میں 1522 میچ کھیلے اور کسی ایک میچ میں بھی وہ انجری کی وجہ سے باہر نہیں ہوئے۔

ویسے ومبلڈن سے انہیں کچھ خاص محبت تھی، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اسے جیتنے کا اعزاز بھی فیڈرر کے پاس ہے۔ انہوں نے 8 مرتبہ ان مقابلوں میں کامیابی حاصل کی اور 2003ء سے 2007ء تک لگاتار 5 مرتبہ یہ اعزاز اپنے نام کیا۔

راجر فیڈرر کا تقریباً 25 سالہ کیریئر اپنے اختتام کو پہنچا جنہیں موجودہ دور کا ٹینس کا عظیم ترین کھلاڑی تصور کیا جارہا ہے۔ یہ میرے حقیقی ہیرو کا ایسا مقام ہے جو چند لوگ ہی حاصل کرسکے ہیں۔

فیڈرر کے کھیل کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی بھی کورٹ پر باآسانی کامیابی حاصل کرلیا کرتے تھے البتہ انہیں کلے کورٹ پر تھوڑی پریشانی ضرور ہوئی۔ فرنچ اوپن میں وہ محض 2009ء کا ایونٹ ہی اپنے نام کرسکے۔

میں نے فیڈرر کو کبھی کسی بھی میچ میں شور شرابا یا نیٹ کو ریکٹ مارتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ ایک جینٹلمین کی طرح رہے اور میچ کے دوران فار ہینڈ، بیک ہینڈ، فٹ ورک اور سلیکشن آف شاٹ جیسی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی تھے اور اس طرح کی خصوصیات کسی دوسرے کھلاڑی میں نہیں پائی گئیں۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ میچ کے دوران ہی پلاننگ کیا کرلیتے تھے اور اپنی پوزیشن حریف کے شاٹس سے پہلے ہی سنبھال لیا کرتے۔

بس یہ ڈھلتی عمر ہی تھی جس کی وجہ سے انہیں ٹینس کورٹ سے رخصت لینا پڑی، ورنہ ان کے شائقین تو اب بھی یہ چاہ رہے ہیں کہ وہ کھیلتے رہیں اور ہم انہیں دیکھتے رہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں