بھارت نے 'دہشت گردی' کا الزام لگا کر اسلامی تنظیم 'پی ایف آئی' پر پابندی لگادی

اپ ڈیٹ 28 ستمبر 2022
اسلامی تنظیم پر پابندی کا فیصلہ رواں ماہ 100 سے زیادہ  کارکنوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد سامنے آیا — فائل فوٹو: رائٹرز
اسلامی تنظیم پر پابندی کا فیصلہ رواں ماہ 100 سے زیادہ کارکنوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد سامنے آیا — فائل فوٹو: رائٹرز

بھارت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا اسلامی گروپ اور اس سے وابستہ افراد پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے غیر قانونی قرار دے دیا اور اس پر 5 سال کے لیے پابندی عائد کردی۔

پابندی کا فیصلہ حکام کی جانب سے رواں ماہ 100 سے زیادہ کارکنوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی خبر کے مطابق پی ایف آئی نے فوری طور پر معاملے پر ردعمل جاننے کےلیے بھیجی گئی ای میل کا جواب نہیں دیا لیکن اس کے کالعدم طلبہ ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) نے حکومتی کارروائی کو سیاسی انتقام اور پروپیگنڈا قرار دیا۔

سی ایف آئی کے قومی سیکریٹری عمران پی جے نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم ہندو قوم کے تصور کے خلاف ہیں، ہم فاشزم کے خلاف ہیں، بھارت کے خلاف نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلم تنظیم کے اراکین پر ملک دشمن سرگرمیوں کا الزام، سیکڑوں گرفتار

انہوں نے کہا کہ ہم اس چیلنج پر قابو پالیں گے، ہم 5 سال بعد اپنے نظریے کو زندہ کریں گے، ہم پابندی کے خلاف عدالت جانے پر بھی غور کریں گے۔

منگل کے روز پی ایف آئی نے پرتشدد اور ملک مخالف سرگرمیوں کے الزامات کی تردید کی تھی جب کہ اس کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے اور مختلف ریاستوں میں اس کے درجنوں ارکان کو حراست میں لیا گیا۔

وزارت داخلہ نے پابندی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ پی ایف آئی اور اس سے منسلک ادارے آئینی سیٹ اَپ کی بےتوقیری کرتے ہوئے دہشت گردی، اس کی مالی معاونت، ہدف بناکر قتل سمیت سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے۔

بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 13 فیصد ہے جب کہ بہت سے لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور حکومت میں مسلم اقلیت کو پسماندگی کا نشانہ بنانے کی شکایت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: پاپولر فرنٹ کےخلاف انسداد دہشت گردی کے تحت ملک گیر کریک ڈاؤن، گرفتاریاں

نریندر مودی کی پارٹی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے الزامات کی تردید کرتی ہے اور اعداد و شمار کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ تمام بھارتی بنا کسی مذہبی تفرقی کے معاشی ترقی اور سماجی بہبود سے متعلق حکومتی اقدامات سے مستفید ہو رہے ہیں۔

پی ایف آئی نے 2019 کے متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی حمایت کی ہے جسے بہت سے مسلمان امتیازی قرار دیتے ہیں، اسی طرح اس نے رواں سال جنوبی ریاست کرناٹک میں مسلم خواتین طالبات کو کلاس میں حجاب پہننے کے حق میں ہونے والے ان مظاہروں کی حمایت کی جن میں پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

اس پابندی سے حکومت کے مخالفین کی جانب سے ہنگامہ کھڑا کیے جانے کا امکان ہے جو نریندر مودی کے پہلی بار وزیر اعظم بننے کے 8 سال بعد بھی پارلیمنٹ میں وسیع عوامی حمایت اور واضح اکثریت برقرار رکھتی ہے۔

'بے رحمی سے دبایا گیا'

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) جو کچھ مسائل پر پابندی کا شکار ہونے والی پی ایف آئی کے ساتھ کام کرتی ہے لیکن اس پر پابندی عائد نہیں کی گئی، نے کہا کہ حکومت نے جمہوریت اور انسانی حقوق کو دھچکا لگایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرنے والے دو وکلا کیخلاف مقدمہ درج

ایس ڈی پی آئی نے اپنے ایک جاری بیان میں کہا کہ حکومت نے بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کے تحت حاصل ہونے والی آزادی اظہار رائے، احتجاج اور تنظیم سازی کے بنیادی حق کو بے رحمی سے کچل دیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت اپوزیشن کو خاموش کرنے اور لوگوں کو اختلاف رائے کے اظہار سے ڈرانے کے لیے تحقیقاتی اداروں اور قوانین کا غلط استعمال کر رہی ہے، ملک میں ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی دکھائی دے رہی ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے کچھ دفتر پر چھاپے مارے گئے اور اس کے کچھ ارکان کو رواں ماہ حراست میں لیا گیا۔

حکومت نے ایک نوٹی فکیشن میں کہا کہ اس نے پی ایف آئی اور اس سے منسلک سی ایف آئی، ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن، آل انڈیا امامس کونسل، نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن، نیشنل ویمن فرنٹ، جونیئر فرنٹ، ایمپاور انڈیا فاؤنڈیشن اور ری ہیب فاؤنڈیشن، کیرالہ پر پابندی لگا دی ہے۔

مزید پڑھیں: ’فیس بک بھارت میں مسلم مخالف، نفرت آمیز مواد کو شفافیت سے نہیں ہٹاتی‘

حکومت کا کہنا ہے کہ اسے ’عالمی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ پی ایف آئی کے عالمی روابط کے متعدد شواہد ملے، اس کے کچھ ارکان نے اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت اختیار کی اور شام، عراق اور افغانستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔

سی ایف آئی کے قومی سیکریٹری عمران پی جے نے بھارتی حکومت کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ان الزامات کو سپورٹ کرنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے کہ پی ایف آئی دہشت گردی میں ملوث ہے یا داعش کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں