نئے چیف سیکریٹری کا تقرر نہ ہونے کے سبب پنجاب میں انتظامی معاملات تعطل کا شکار

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2022
پنجاب کے چیف سیکریٹری کامران علی افضل — تصویر: ٹوئٹر
پنجاب کے چیف سیکریٹری کامران علی افضل — تصویر: ٹوئٹر

پنجاب میں انتظامی 'الجھن' مزید گہری ہوگئی ہے کیونکہ وفاقی حکومت نئے چیف سیکریٹری کا تقرر اب تک نہیں کر سکی اور موجودہ چیف سیکریٹری کامران علی افضل عہدے پر رہنے سے انکار کرتے ہوئے 14 روز کی 'احتجاجی چھٹی' پر چلے گئے تھے، جس کی میعاد (آج) جمعہ کو ختم ہو رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے پی اینڈ ڈی بورڈ کے چیئرمین عبداللہ خان سنبل کو 'اضافی چارج' دے دیا تھا جو صوبے کے سب سے اہم انتظامی دفتر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، لیکن انہیں اندازہ نہیں ہے کہ آگے معاملات کیا ہوں گے۔

ستمبر کے اوائل میں کامران علی کی 'پریشانی' کا اندازہ لگاتے ہوئے پنجاب نے تین افسران کا ایک پینل بھیجا تھا جسے وفاقی حکومت نے قبول کرنے سے انکار کردیا، جس کے بعد کامران علی افضل چھٹی پر جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بارہا درخواستوں کے باوجود تبادلہ نہ ہونے پر چیف سیکریٹری پنجاب رخصت پر چلے گئے

اس سے صوبے میں ایک انتظامی تعطل آگیا تھا جو بدستور جاری ہے کیوں کہ موجودہ چیف سیکریٹری نے کام کرنے سے جبکہ حکومت پنجاب نے نئے نام تجویز کرنے سے انکار کردیا۔

موجودہ غیر فیصلہ کن صورتحال میں معلوم ہوا ہے کہ کامران افضل کی چھٹی میں توسیع کی توقع کی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے 'میرٹ کے خلاف' تبادلوں اور تعیناتیوں پر مایوس ہو کر اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

اس سے قبل انہوں نے اپنے تبادلے کے لیے وفاقی حکومت سے کئی درخواستیں کیں لیکن وہ بے سود رہیں۔

اس دوران پنجاب حکومت اس رپورٹ کے دائر ہونے تک بے خبر تھی اور اس کا خیال تھا کہ اگر کامران افضل نے اپنی چھٹی کی مدت میں توسیع کی درخواست دی تو حکومت چیف سیکریٹری آفس میں عبداللہ سنبل کے قائم مقام چارج کی مدت میں توسیع کرنے پر مجبور ہوگی۔

مزید پڑھیں: چیف سیکریٹری پنجاب کی وفاقی حکومت سے ‘خدمات واپس’ لینے کی درخواست

چونکہ چیف سیکریٹری کامران افضل وفاقی حکومت سے اپنے تبادلے کی درخواست کر رہے تھے، پنجاب حکومت نے رواں ماہ کے شروع میں صوبے میں باقاعدہ چیف سیکریٹری کے انتخاب اور تعیناتی کے لیے تین سینئر افسران کا ایک پینل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجا تھا۔

وزیر اعلیٰ آفس نے تین افسران پر مشتمل ایک پینل کی سفارش کی تھی جس میں سیکریٹری کابینہ احمد نواز سکھیرا، چیئرمین پی اینڈ ڈی بورڈ عبداللہ خان سنبل اور سابق ایس ایم بی آر بابر حیات تارڑ شامل تھے۔

وزیر اعلیٰ آفس نے بھی پینل پر نظرثانی نہیں کی اور پنجاب کے چیف سیکریٹری کے انتخاب کے لیے وفاقی حکومت کو بھیجے گئے تین ناموں پر اٹک گئے۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور تنازع: وفاق اور پنجاب کے درمیان تناؤ میں اضافہ

دریں اثنا پنجاب حکومت نے کامران افضل کی انتظامیہ کے اہم افسران کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری سید علی مرتضیٰ، ان کے جانشین شہریار سلطان، سیکریٹری زراعت علی سرفراز حسین اور سیکریٹری قانون و پارلیمانی امور احمد رضا سرور کو او ایس ڈی بنا دیا ہے۔

سی سی پی او لاہور کے ٹرانسفر آرڈرز موصول

دوسری جانب پنجاب حکومت کو بالآخر کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے احکامات موصول ہوگئے ہیں اور انہوں نے فوری طور پر وفاقی حکومت کو احکامات منسوخ کرنے کے لیے خط لکھا کیونکہ پنجاب میں ان کی خدمات درکار تھیں۔

غلام محمود ڈوگر اس وقت وفاقی حکومت کے ریڈار پر آئے تھے جب لاہور پولیس نے مسلم لیگ (ن) کے 2 وزرا کے ساتھ ساتھ سرکاری نشریاتی ادارے ’پی ٹی وی‘ کے 2 سینئر عہدیداروں کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مبینہ طور پر مذہبی منافرت پھیلانے اور ان کی جان کو خطرے میں ڈالنے کے الزام پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

اس کارروائی کے ایک روز بعد ہی وفاقی حکومت کی جانب سے سی سی پی او کی خدمات واپس لینے کا اقدام سامنے آیا۔

تاہم جب 20 ستمبر کو سی سی پی او کے تبادلے کے احکامات سوشل اور روایتی میڈیا پر شیئر کیے گئے، وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی ان کے دفاع میں سامنے آئے اور زور دے کر کہا کہ صوبے کا کوئی بھی سول افسر پنجاب حکومت سے باضابطہ اجازت کے بغیر وفاقی حکومت کو رپورٹ کرنے کے لیے واپس نہیں جائے گا۔

مزید پڑھیں: سی سی پی او تبادلے کا معاملہ ٹھنڈا، ٹرانسفر آرڈرز پنجاب حکومت کو اب تک موصول نہ ہوئے

بعد ازاں غلام محمود ڈوگر کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ وہ چارج نہیں چھوڑیں گے اور نتیجتاً انہیں وزیر اعلیٰ نے بلایا اور ان کی پیٹھ پر تھپکی دی۔

تبادلے کے احکامات موصول ہونے کے بعد ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے پاس افسر کو سرنڈر کرنے یا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے احکامات منسوخ کرنے کے لیے 7 روز کا وقت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں