ایران میں ہونے والے مظاہروں میں شدت، پولیس نے 9 یورپی باشندوں کو گرفتار کر لیا

01 اکتوبر 2022
ایران نے امریکا پر الزام لگایا کہ ’امریکا، ایران میں بدامنی کا فائدہ اٹھا کر ملک کے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے— فوٹو: رائٹرز
ایران نے امریکا پر الزام لگایا کہ ’امریکا، ایران میں بدامنی کا فائدہ اٹھا کر ملک کے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے— فوٹو: رائٹرز

ایران میں پولیس حراست کے دوران مہسا امینی کی ہلاکت پر ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران بدامنی پھیلانے کے الزام میں ایرانی پولیس نے 9 یورپی باشندوں کو گرفتار کر لیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جرمنی، پولینڈ، اٹلی، فرانس، ہالینڈ، سویڈن اور دیگر ممالک کے شہریوں کی گرفتاری کے نتیجے میں ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا خدشه ہے۔

یہ بھی پڑھیں : دشمن ایران کو کمزور کرنے کے لیے احتجاج کو استعمال کررہے ہیں، خامنہ ای

حکام کےمطابق پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے والے مسلح مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک ہو گئے۔

ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے بعد ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔

ایران نے امریکا پر الزام لگایا کہ ’امریکا، ایران میں بدامنی کا فائدہ اٹھا کر ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ایران انٹیلی جنس وزارت نے میڈیا کو ایک بیان میں کہا کہ 9 نامعلوم افراد کو مظاہر وں کے دوران بدامنی پھیلانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے ’غیر موزوں لباس‘ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے لیے لباس پہننے سے متعلق سخت پابندیاں عائد ہیں۔

ایران مہسا امینی کی موت کے بعد ابھرنے والے مظاہروں کو دبانے کے لیے کیے گئے کریک ڈاؤن پر شدید تنقید کی زد میں ہے، یہ مظاہرے پہلی بار عوامی بغاوت میں تبدیل ہوئے اور اسے حالیہ عرصے کے دوران ملک میں ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ مانا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں : مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک

واضح رہے کہ یہ مظاہرے مہسا امینی کے آبائی شہر سے لے کر ایران کے تمام 31 صوبوں تک پھیل چکے ہیں جن میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں سمیت معاشرے کے تمام لوگ شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے ۔

دوسری جانب تہران نے ان الزامات کی تردید کردی ہے۔

کریک ڈاؤن

اگرچہ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے حکمران ان مظاہروں نمٹنے کے لیے مخصوص حکمت عملی اختیار کرے گی اور اپنا دفاع کرنی کی کوشش کریں گے ۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ایران میں مظاہروں کے دوران دو درجن صحافیوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور ثقافتی شخصیات کو بھی گرفتار کیا ہے۔

جبکہ صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے 29 ستمبر تک کم از کم 28 صحافیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔

اسی دوران ایران کے ایک سینئرعالم نے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ایران میں نماز جمعہ کے اجتماع کے رہنما محمد جواد حاج علی اکبری نے کہا کہ ’ہماری سلامتی ہمارا بنیادی حق ہے، ایرانی عوام نے اس طرح کے وحشیانہ تشدد میں ملوث افراد کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم از کم 52 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب ہلاکتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں مظاہرین مذہبی پیشواؤں کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیے۔

ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل ہجوم نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے زوال کے اقتدار کے خاتمے کے لیے نعرے لگائے جبکہ اسی دوران کچھ ویڈیوز میں شدید فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں ۔

انسانی حقوق کے گروپ ہینگاؤ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں کہا گیا ہے کہ امینی کے آبائی شہر میں مظاہرے ہوئے ہیں، جہاں خواتین نے مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا، خواتین نے نقاب لہرائے اور جلائے، کچھ نے عوامی مقامات پر اپنے بال تک کاٹے۔

ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے جنوب مغربی شہر آبادان میں مظاہروں کی ویڈیوز پوسٹ کی گئیں جس میں مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے بازیکی، دیگر ویڈیوز میں ایران کے مغربی شہر کرج اور وسطی ایران کے شہر اصفہان میں مظاہرے کی ویڈیوز پوسٹ کی گئیں۔

پولیس اسٹیشن پر حملہ

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ’نامعلوم مسلح افراد‘ نے جنوب مشرقی شہر زاہدان میں موجود پولیس اسٹیشن پر فائرنگ کی جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے جوابی فائرنگ کی۔

صوبائی گورنر نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے میں سیکیورٹی فورسز سمیت 19 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔

مزید پڑھیں : ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل

سرکاری میڈیا نے بتایا کہ زاہدان میں دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ کے دوران سیستان اور صوبہ بلوچستان میں پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس چیف ہلاک ہو گئے ہیں۔

غیرملکی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی ایس این اے کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ زاہدان یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاج کی وجہ سے 8 اکتوبر تک آن لائن کلاسز کا انعقاد کیا جائے گا ۔

انٹرنیٹ واچ ڈاگ نیٹ بلاکس نے ٹوئٹر پر کہا کہ زاہدان میں مظاہروں کی وجہ سے انٹرنیٹٹ سروس شدید متاثر ہوئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں