آپ کو وہ زمانہ یاد ہوگا جب پی ٹی وی کے پروگراموں میں فیض احمد فیض شریک ہوا کرتے تھے، ساتھ والی نشست پر احمد فراز براجمان ہوتے۔ اگلے روز ٹی وی پر اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے درشن ہوجاتے۔ صبح کی نشریات میں مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات طے ہوتی۔ جمیل الدین عالی اور اصغر ندیم سید سے بھی ہم ٹی وی نامی جادوئی ڈبے کے ذریعے مل لیتے۔ ریڈیو کے وسیلے کبھی آپ امجد اسلام امجد کی نظمیں سنتے، کبھی پروین شاکر کی غزلیں۔ مگر پھر وہ سنہری دور خاک ہوا۔ بدبختی کا طوفان سب اڑا لے گیا۔ اب فقط مایوسی ہی مایوسی ہے۔

کہتے ہیں کہ شاعر، ادیب اور دانشور کسی بھی معاشرے کا دماغ ہوتے ہیں۔ ماضی میں جھانکیں تو یہ سچ ہی تھا۔ کرشن چندر، عصمت اور بیدی کے افسانوں نے سماج کی رفو گری کی، جوش، جالب اور جون ایلیا کے اشعار نے معاشرتی و نفسیاتی گتھیاں سلجھائیں۔ اشفاق احمد اور واصف علی واصف نے ناظرین و قارئین کو روحانی دنیا سے آشکار کرنے کا ذمہ اٹھایا۔

ایک عرصے تک سماج کی باگ ڈور قلم کاروں اور فنکاروں کے ہاتھ میں رہی۔ انہوں نے اپنی سی کوشش کی، جو بڑی حد تک کارگر ٹھہری، مگر دھیرے دھیرے حالات بدلنے لگے۔ تبدیل ہوتے رجحانات، نئی دلچسپیوں اور ٹیکنالوجی نے عوام کی توجہ منتشر کردی۔ خواص نے سماج سے لاتعلقی اختیار کی اور آخرکار انتشار ہی اکلوتی حقیقت بن گیا۔

آمریتیں آئیں، حکومتیں بدلیں اور انتہاپسندی و دہشتگردی نے سر اٹھایا۔ ادیب اور فنکار معاشرے میں دماغ کے منصب سے جلد ہی رخصت ہوگئے۔ جس طبقے کو سماجی بدن کا اہم ترین حصہ سمجھا جاتا تھا، اسے ایک بے وقعت ٹکڑا سمجھ لیا گیا۔ جس کا ہونا، نہ ہونا ایک برابر۔

ایسا نہیں ہے کہ گزشتہ چند عشروں میں معاشرے نے حقیقی فنکار اور سچے قلم کار پیدا نہیں کیے۔ یقینی طور پر منٹو سے انتظار حسین اور فیض سے انور شعور تک، کئی قابلِ تقلید مثالیں ہمارے سامنے آئیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج کے ادیب اور فنکار کے الفاظ، اس کے افکار معاشرتی ارتقا اور ترقی میں بے اثر دکھائی دیتے ہیں۔ گو پرنٹ میڈیا کی حد تک تو ان کا تذکرہ ہوتا ہے، مگر سچ یہی ہے اب وہ معاشرے کے لیے رول ماڈل نہیں رہے۔ بے وقعت ہوگئے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ طبقہ غیر اہم کیوں کر ہوا؟ جو کل تک مرکز میں تھا، حاشیے پر کیسے آگیا؟ جسے کل تک سامعین میسر تھے، اسے آج اپنی آواز بھی کیوں سنائی نہیں دیتی؟

اس کا ایک بڑا سبب تو یہی ہے کہ ماضی کے برعکس اب یہ طبقہ رائے عامہ کا نمائندہ نہیں رہا۔ اس کی رسائی کم ہوگئی ہے۔ دوسری جانب سیاستدان، اینکرز اور کرکٹر رائے عامہ کے نمائندے بن گئے ہیں۔ ان کے مداحوں کی تعداد میں غیریقینی حد تک، بلکہ خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جبکہ ادیب طبقہ سکڑتا جارہا ہے۔

مگر یہ سب ہوا کیوں کر؟ فیض، فراز، اشفاق احمد اور تارڑ کل تک ٹی وی کے مقبول ترین چہرے تھے، انتظار صاحب کے کالمز کا طوطی بولتا تھا۔ اور یہ کوئی زیادہ پرانا قصہ نہیں۔ سمجھیں دو عشرے پرانی بات ہے، مگر پھر اچانک سب کچھ کیسے بدل گیا؟

اس کے اسباب کھوجے جائیں، تو ہمیں میڈیا کے میدان میں آنے والی حیران کن اور انقلابی تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ کل تک صرف پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان ہی تفریح کے لیے میسر مؤثر ترین ذرائع تھے اور دونوں ہی پلیٹ فارم پر فن و ادب کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ اسی طرح اس وقت کے اخبارات و رسائل بھی ادبی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ شاعر اور ادیبوں کو سیلیبریٹی کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن جوں جوں نجی چینلز کی آمد ہوئی، منظر بدلنے لگا۔

ٹی وی اور ریڈیو دونوں ہی میڈیم تبدیلی سے گزرے۔ اُدھر ایف ایم فریکوینسی پر بہار آئی تو اِدھر نجی ٹی وی چینلز جلوے بکھیرنے لگے۔ نئے تجربات نے ناظرین کو نئے ذائقوں سے متعارف کروایا، زندگی اچانک تیز رفتار اور ہنگامہ خیز ہوگئی، جس کے بعد ان ناظرین کے لیے ریڈیو اور ٹی وی پر، دھیمے لہجے میں جاری مناظروں میں دلچسپی باقی نہیں رہی۔

گو اوائل میں چند ٹی وی چینلز نے اس ضمن میں اپنی سی کوشش کی۔ چند پروگرامز بھی کیے۔ غازی صلاح الدین دوبارہ میدان میں اترے، مگر وقت قیامت کی چال چل گیا تھا۔ اب ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہمارے ادیب، موسیقار، ہمارے فنکار دھیرے دھیرے مرکز سے دُور ہوتے گئے اور آخر حاشیے پر پہنچ کر دم توڑ گئے۔

نئے تجربات نے ناظرین کو نئے ذائقوں سے متعارف کروایا، زندگی اچانک تیز رفتار اور ہنگامہ خیز ہوگئی— تصویر: اے ایف پی
نئے تجربات نے ناظرین کو نئے ذائقوں سے متعارف کروایا، زندگی اچانک تیز رفتار اور ہنگامہ خیز ہوگئی— تصویر: اے ایف پی

تیسرا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس عمل سے معاشرے کو کتنا نقصان پہنچا؟ اس کا جواب نہ صرف طویل ہے بلکہ تحقیق طلب اور غیرجانبدار تجزیے کا بھی متقاضی ہے۔ سرسری جائزے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس واقعے نے معاشرے کے ذوق اور مزاج پر ضرب لگائی، بات کہنے اور سننے کی قابلیت کو متاثر کیا، بالخصوص بات سمجھنے کے ہنر کو زنگ لگا دیا۔ جب ہم ایک دوسرے کو سمجھنے ہی کے قابل نہیں رہے، تو مکالمہ تمام ہوا اور ہم بے سمتی کا شکار ہوگئے۔

ماضی کے فلمی گیت ہوں یا عشاق کے اپنے محبوب کو تحریر کردہ رومانوی خط، ان کے پس منظر میں فن و ادب کی کارفرمائی دکھائی دیتی تھی۔ یادوں کے اوراق پلٹیں، محمد علی، وحید مراد، ندیم کے طرزِ گفتگو، نشست و برخاست اور ملبوسات کا جائزہ لیں۔ اب ذرا ٹی وی کی سمت چلے آئیں، نیوز کاسٹر کو خبریں پڑھتے ہوئے دیکھیں، ڈراموں میں طلعت حسین اور راحت کاظمی کی اداکاری سے محظوظ ہوں، موسیقی کے پروگرام دیکھیں، الغرض آپ کو ہر شے میں ایک نفاست نظر آئے گی، ہر عمل آپ کی ذوق کی تشکیل کرتا تھا۔

آج کی ہنگامہ خیزی اور ادیب و شعرا کی ناقدری نے ہم سے ہمارا ذوق چھین لیا۔ کیا کہنا ہے، کیسے کہنا ہے، سننا کیسے ہے، اٹھنے بیٹھنے کے آداب کیا ہیں، ان سب کی تربیت کا جو اہتمام ماضی میں ٹی وی اور ریڈیو کیا کرتے تھے، ان پر ایک ان دیکھی بندش لگ گئی اور ہماری دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیتیں جاتی رہیں۔

اس مسئلے کا سدِباب کیسے ممکن ہے۔ اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک طویل المدتی عمل ہے، جس کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ لگن اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ مگر یہاں تو بحرانوں کا طوفان برپا ہے، آڈیو اور ویڈیو لیکس کا ایسا بھنور ہے کہ بڑے بڑے بحری بیڑے ڈوب جائیں اور کوئی ان کا نشان بھی نہ پاسکے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Polaris Oct 11, 2022 10:19pm
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
YamminGamin Oct 12, 2022 01:26am
بہت ہی نازک امر کی بہت ہی عمدہ نشان دہی فرمائی لیکن اب ایسا ممکن نی لگ رہا.