مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں کشیدگی کے پیچھے امریکا اور اسرائیل ہیں، سپریم لیڈر

03 اکتوبر 2022
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ہمیں بھی دلی افسوس ہوا ہے —فوٹو: رائٹرز
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ہمیں بھی دلی افسوس ہوا ہے —فوٹو: رائٹرز

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کی لہر کو بڑھکانے کا الزام دشمن ممالک امریکا اور اسرائیل پر عائد کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ ’میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ تنازعات اور غیریقینی صورتحال امریکا اور قابض، جھوٹی صیہونی حکومت اور ان کے ایجنٹوں نے بیرونِ ملک بیٹھے کچھ غدار ایرانیوں کی مدد سے پیدا کی ہی۔‘

نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد پہلی بار عوامی خطاب میں ایران کے 83 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پولیس پر مجرموں کے خلاف اٹھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی پولیس پر حملہ کرتا ہے وہ لوگوں کو مجرموں، ٹھگوں، چوروں سے غیر محفوظ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ہمیں دلی افسوس ہوا ہے مگر جس طرح کچھ لوگوں نے بغیر تفتیش اور ثبوت کے سڑکوں پر خوف و ہراس پیدا کیا، قرآن پاک کی بے حرمتی کی، پردہ دار خواتین کے چہروں سے نقاب اتارے، مسجدوں اور گاڑیوں کو نظرِ آتش کیا وہ عمل بھی درست نہیں ہے۔‘

مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کو ایران کی اخلاقی پولیس نے 22 سالہ مہسا امینی کو 'غیر موزوں لباس' کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران وہ کومہ میں جانے کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔

مہسا امینی کی ہلاکت پر اسلامی جمہوریہ ایران میں تین برسوں کے بعد احتجاجی لہروں میں بڑے پیمانے پر شدت آئی ہے جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے تہران میں یونیورسٹی طلبا پر رات کے وقت کریک ڈاؤن کرنا شروع کیا۔

'ناقابل یقین ہمت'

تہران میں شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں طلبہ پر رات کی تاریکی میں کریک ڈاؤن نے لوگوں میں تشویش پیدا کردی ہے جہاں مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پولیس نے سیکڑوں طلبہ کے خلاف اسٹیل پیلٹ گن اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک

خبر رساں ایجنسی ’مہر‘ نے رپورٹ کیا کہ تشدد کے دوران طلبہ نے ’عورت، زندگی اور آزادی‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔

رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر سائنس محمد علی ذوالفضل صورتحال پر قابو پانے کی کوشش میں طلبہ کے پاس پہنچے۔

اوسلو میں قائم ایران کے انسانی حقوق گروپ نے ویڈیوز شیئر کیں جن میں بظاہر موٹر سائیکلوں پر سوار ایرانی پولیس کو زیر زمین کار پارک سے بھاگتے ہوئے طلبہ کا پیچھا کرتے ہوئے دکھایا گیا جو ایسے گرفتار لوگوں کو اپنے ساتھ لے جا رہے تھے جن کے سر کالے کپڑوں میں ڈھکے ہوئے تھے۔

ایران ہیومن رائٹس نے تہران میٹرو اسٹیشن کی ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں ایک ہجوم کو ’خوف زدہ مت ہوں، ہم سب ساتھ ہیں‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ایران کی شریف یونیورسٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ برداشت کرنا مشکل ہے۔

مزید پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

وزیر خارجہ نے لکھا کہ ’ایرانیوں کی ہمت ناقابل یقین ہے جہاں حکومت کی وحشیانہ طاقت تعلیم اور آزادی کی طاقت واضح طور پر خوف کا اظہار ہے۔

ایران میں نیویارک کے قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ ان کو شریف یونیورسٹی اور تہران سے سامنے آنے والی ویڈیوز پر انتہائی تشویش ہے جہاں مظاہروں پُرتشدد, جبر اور قیدیوں کے چہروں کو مکمل طور پر کپڑے میں ڈھانپ کر لے جایا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مرکزی شہر اصفہان سمیت دیگر جامعات میں بھی مظاہروں کی خبریں سامنے آئیں جبکہ ٹوئٹر پر ایک طلبہ گروپ کی جانب سے غیر مصدقہ اطلاعات میں کہا گیا کہ دارالحکومت میں درجنوں طلبا کو گرفتار کیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نے اعلان کیا ہے کہ حالیہ کشیدگی اور طلبہ کو تحفظ کی ضرورت کے مطابق پیر سے تمام کلاسز ورچوئلی ہوں گی۔

ایران نے ملک بھر میں جاری مظاہروں کی پشت پناہی کا الزام بیرونی طاقتوں پر عائد کیا ہے اور گزشتہ ہفتے فرانس، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈ اور پولینڈ کے 9 غیرملکیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دشمن ایران کو کمزور کرنے کے لیے احتجاج کو استعمال کررہے ہیں، خامنہ ای

انٹرنیٹ کی بندش اور واٹس ایپ، انسٹاگرام اور دیگر آن لائن سروسز پر بلاکس کے باوجود ہلاکتوں کی تعداد کا تخمینہ لگانے والی انسانی حقوق کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ مہسا ایمنی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک مظاہروں کے دوران 92 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سے قبل کہا تھا کہ انہوں نے 53 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جہاں گزشتہ ہفتے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’فارس‘ نے کہا تھا کہ مظاہروں کے دوران کشیدگی میں 60 افراد کے قریب لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

کردستان صوبے کے ماریوان میں فسادات سے نمٹنے والی پولیس کے سربراہ آج کو کشیدگی کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے جو بعدازاں زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے جو کہ 16 ستمبر کے بعد سیکیورٹی فورسز میں 12ویں ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کے والدین نے پولیس کے خلاف شکایت درج کرادی

ایران ہیومن رائٹس نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 30 ستمبر کو ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں کشیدگی کے دوران 42 افراد ہلاک ہوگئے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا کہ بلوچستان صوبے میں یہ تنازعات اس پھیلے جب ایک پولیس سربراہ پر نوعمر بچی سے ریپ کرنے کا الزام لگا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں