سیلاب کے باعث پاکستان ریلوے کو یومیہ 16 کروڑ روپے کا نقصان پہنچنے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2022
کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ریلوے ٹریک سیلابی پانی سے ڈوب گئے ہیں — فائل فوٹو: ڈان
کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ریلوے ٹریک سیلابی پانی سے ڈوب گئے ہیں — فائل فوٹو: ڈان

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان ریلوے نے رواں سال وفاقی حکومت سے کوئی قرض نہیں لیا البتہ سیلاب کے باعث ریلوے کو یومیہ 16 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کے چیئرمین ظفر زمان رانجھا نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا کہ تباہ کن سیلاب سے ریلوے کو بہت نقصان ہوا، کئی شہروں اور دیہاتوں میں نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے ریلوے اسٹیشن میں پانی جمع ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سرکلر ریلوے کا خواب اور محکمہ ریلوے کا نکما پن

دوسری جانب چیئرمین کمیٹی نے وزیر ریلوے سعد رفیق کی اجلاس میں عدم شرکت پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

کمیٹی اراکین نے پاکستان ریلوے کی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی بھی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔

کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ریلوے ٹریک سیلابی پانی سے ڈوب گئے، ریلوے حکام کو اس بات کی تحقیقات کرنی چاہیے اور مستقبل میں ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

کمیٹی کے اراکین نے ریلوے ٹریک کے نیچے پانی کے بہاؤ کو آسان بنانے کے لیے پُل اور کراسنگ بنانے کی تجویز پیش کی۔

مزید پڑھیں: کراچی سے روہڑی ٹرین سروس بحال ہونے میں مزید چند ہفتے لگیں گے، سعد رفیق

کمیٹی کے چیئرمین محمد معین وٹو نے کہا کہ پاکستان ریلوے پہلے ہی خسارے کا شکار تھا، سیلاب کی وجہ سے ریلوے کو مزید مالی بوجھ سامنا کرنا پڑے گا، کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ مستقبل میں اگر دوبارہ ہنگامی صورتحال آئی تو ملک کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

ایک اور رکن کا کہنا تھا کہ سیلاب کے دوران قوم متحد نہیں تھی جس کی وجہ سے حکومت کو عالمی برادری سے امداد لینی پڑی۔

کمیٹی چیئرمین نے اراکین کو بتایا کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے ریلوے افسران سفر اور رعایتی الاؤنس کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔

محمد معین وٹو نے کہا کہ 3 کروڑ 55 لاکھ روپے قلیوں کو دیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے متاثرہ کراچی تا پشاور ریل سروس 35 دن بعد بحال

ان کا کہنا تھا کہ ریلوے میں اس وقت 52 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں البتہ مزید 33 ہزار لوگوں کی گنجائش موجود ہے اور ان کے پینشن کا بوجھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں تقرریاں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں