وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے جو قانون کی پاسداری میں سب سے بہتر ہو، صدر مملکت

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2022
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سوشل میڈیا سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو روک دیا جائے —فوٹو: ڈان نیوز
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سوشل میڈیا سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو روک دیا جائے —فوٹو: ڈان نیوز

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے جو قانون کی پاسداری میں سب سے بہتر ہے، وہ معاشرہ ترقی کر ہی نہیں سکتا جہاں امیر کے لیے قانون الگ اور غریب کے لیے قانون الگ ہو۔

اسلام آباد میں دو روزہ بین الاقوامی سیرت النبیﷺ کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ربیع الاول وہ عظیم مہینہ ہے جب حضرت محمد ﷺ کی ولادت ہوئی، وہ رحمت بن کر آئے، نور حق پھیلایا اور اندھیرے مٹ گئے، یہ انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں اس وقت خواتین بھی موجود ہیں اور آج کی گفتگو کا موضوع ’معاشرے کی اخلاقیات اور اصلاح و تربیت‘ ہے، خاندان میں تربیت میں ہماری ماؤں بہنوں کا حصہ ہم کبھی کبھی بھول جاتے ہیں، بچوں کے ساتھ سب سے زیادہ وقت ماں گزارتی ہے اس لیے ایک قوم کی تبدیلی میں ان کا بنیادی اثر ہوتا ہے، میں آج نہیں بالخصوص خوش آمدید کہتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عالم سختی سے بات کرے گا تو لوگوں کے درمیان دوری پیدا کرے گا اور جو شفیق ہوگا اس کی بات میں بڑا اثر ہوگا، دراصل یہی اخلاقیات ہیں، حضور اکرم ﷺ عظیم ترین شخصیت تھے لیکن ان میں اتنی ہی زیادہ انکساری تھی جبکہ میں نے دیکھا ہے کہ جو کوئی دینی و دنیاوی علم حاصل کر لیتا ہے وہ جھکنے کے بجائے اکڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے، ہمیں حضرت محمد ﷺ کی زندگی سے یہ خصوصیت اپنانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر عارف علوی امریکا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ دوسری چیز سچائی اور امانتداری ہے، لوگوں کو حضرت محمد ﷺ پر بھی اسی لیے یقین کیا کیونکہ وہ صادق اور امین تھے، سچائی اور ایمانتداری اسلامی معاشرے کی بنیاد بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون شکنی روکنے کے لیے 4 بنیادیں ہیں، سب سے پہلے تقویٰ اور خدا خوفی ہے، دوسرا یہ کہ قانون موجود ہو، تیسری چیز اس قانون پر عملدرآمد ہے اور چوتھی چیز معاشرہ ہے، معاشرہ اگر ایسے عناصر کا راستہ نہیں روکے گا تو وہ ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا۔

صدر مملکت نے کہا کہ وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے جو قانون کی پاسداری میں سب سے بہتر ہے، وہ معاشرہ ترقی کر ہی نہیں سکتا جہاں امیر کے لیے قانون الگ اور غریب کے لیے قانون الگ ہو، جہاں قانون کی پاسداری نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے، ہم سب کے پاس موبائل ہے جس پر ہم مسلسل غیبت کرتے ہیں، میرے مزاج کے مطابق جو بات میرے پاس آتی ہے وہ میں بنا تحقیق کے آگے بھیج دیتا ہوں۔

مزید پڑھیں: سیاسی جنگ بندی کے مشورے سے پیچھے ہٹنے پر صدر مملکت کو تنقید کا سامنا

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سوشل میڈیا سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو روک دیا جائے، مسلمان بعض اوقات نئی ایجادات سے ڈر جاتے ہیں، پرنٹنگ پریس، لاؤڈ اسپیکر، ٹی وی وغیرہ جیسی کئی مثالیں ہیں، طریقہ یہ ہے کہ ان چیزوں کی خصلت پہچان کر ان کی برائیوں سے دور رہیں، یہ چیزیں واپس نہیں جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر نئی ایجاد میں اچھی بری چیزیں موجود ہوتی ہیں، ہمیں اپنے بچوں کی ایسے تربیت کرنی ہے کہ وہ اچھے بُرے کا فرق پہچانیں اور فاسق کی خبر کی اچھی طرح تحقیق کرلیں، فاسق کی خبر کا سب سے زیادہ خمیازہ مسلمانوں نے خود بھگتا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ طہارت نصف ایمان ہے، میں خود پاکستان میں مسواک عام کرنے کے لیے کوشاں ہوں، طہارت سے پاکستان میں بہت سی بیماریاں رکیں گی۔

انہوں نے کہا کہ کوئی معاشرہ اس وقت ترقی نہیں کر سکتا جب تک غریب کی فکر نہیں کرے گا، جنہوں نے غربت کم کی وہ بڑی قوم بن کر ابھرے، اسلام کا بنیادی حکم یہی ہے کہ غریب، یتیم اور کمزوروں کی فکر کرو۔

یہ بھی پڑھیں: شہدا کے جنازے میں میری عدم شرکت کو غیر ضروری طور پر متنازع بنایا جا رہا ہے، صدر

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ امن سے رہو، تمہارا مذہب تمہارے ساتھ ہمارا مذہب ہمارے ساتھ، یہ بہت بڑی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں جو سخت رویے بڑھتے جارہے ہیں اس جانب آپ سب کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، انسان اگر ہمدردی اور محبت کے ساتھ کام کرے تو رویے سخت نہیں ہو سکتے، درگزر نہیں ہوگا تو معاشرے میں نفرت پھیلے گی۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہمارا یہ رویہ ہے کہ ایک دوسرے کی ذاتی گفتگو ریکارڈ کر کے ایک دوسرے کو سنانا چاہتے ہیں، اسلام نے رازداری کا بہت خیال رکھا ہے، ہم اپنی والدہ، اہلیہ اور احباب سے جو گفتگو کرتے ہیں اس میں رازداری کا بہت بڑا عنصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے متعلق آج آپ گھر جاکر جو گفتگو کریں گے وہ بھی میرے سننے کے لیے نہیں ہوگی، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بات باہر نکالے لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ انسان جس جانب جارہا ہے کل کو کوئی رازداری نہیں رہے گی، صرف یہ ہوگا کہ سب پہچان لیں گے کہ ہر انسان ایسا ہی ہے، فرشتہ کوئی نہیں ہے، کسی نہ کسی درجے پر سب گناہ گار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں