کراچی: کثیرالمنزلہ عمارت سے گر کر جاں بحق نوجوان کے قتل کے الزام میں گرفتار 6 دوست رہا

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2022
مجسٹریٹ نے کہا کہ ملزمان کے خلاف مضبوط شواہد موجود نہیں تھے — فائل فوٹو: ٹوئٹر
مجسٹریٹ نے کہا کہ ملزمان کے خلاف مضبوط شواہد موجود نہیں تھے — فائل فوٹو: ٹوئٹر

کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے کثیرالمنزلہ عمارت سے گر کر جاں بحق ہونے والے 26 سالہ نوجوان لڑکے کی موت کے مقدمے سے 6 دوستوں کو رہا کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 31 جولائی کو ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے) میں کثیرالمنزلہ رہائشی عمارت سے گر کر جاں بحق ہونے والے 26 سالہ عادل مسعود خان کی موت کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سید محمد عمار، عثمان احمد، اویس، عزیر احمد، احمد جمیل اور سید فاز کو گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لوٹ مار میں مزاحمت پر ڈاکوؤں نے والدین کے اکلوتے لخت جگر کو قتل کردیا

جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) مظہر علی نے کراچی سینٹرل جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ اگر 6 ملزمان کے خلاف کسی اور کیس میں کارروائی نہیں ہو رہی تو انہیں رہا کیا جائے۔

اس سے قبل تحقیقاتی افسر ڈی ایس پی اقبال رضا شیخ نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تھی۔

مجسٹریٹ کے حکم نامہ میں بتایا گیا کہ ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 (قتل عام) کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، عدالت نے دفعہ 321 کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ تعزیرات پاکستان کی شق میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر ایک شخص کا دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں تھا لیکن کسی غیر قانونی کام کی وجہ سے دوسرے شخص کی موت کا سبب بنا تو اسے دفعہ 322 کے تحت سزا دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی: عمارت سے گر کر جاں بحق ہونے والے نوجوان کے قتل کے الزام میں 6 دوست گرفتار

مجسٹریٹ نے بتایا کہ کسی کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی سے زیادہ غلط کام سرانجام دینا ہے یعنی غیر قانونی کام کرکے دوسرے شخص کے موت کا سبب بننا ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ تمام کارروائی کے دوران ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

اسی دوران عدالت نے شکایت کنندہ کے شبہ کو خارج کردیا، شکایت کنندہ (مقتول کی بہن) کو شبہ تھا کہ ان کا بھائی اور زیر حراست دوست منشیات کا استعمال کرتے تھے اور کرائے کے فلیٹ پر پارٹی کر رہے تھے۔

مجسٹریٹ نے واضح کیا کہ تحقیقات کے دوران شکایت کنندہ کی درخواست پر لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا لہٰذا مقتول کی موت کی وجہ اونچائی سے گرنے، دماغ میں چوٹ لگنے سے زیادہ خون بہہ جانے کے بعد کارڈیو پلمونری قرار دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: دوست کو قتل کے بعد تیزاب میں ڈالنے والے سابق ایس ایس پی کو عمر قید کی سزا

عدالت نے تحقیقاتی افسر کی بات سے اتفاق کیا کہ ملزمان کے خلاف مضبوط ثبوت نہیں تھے جس کے بعد کارروائی کو ’اے‘ کلاس کے تحت آگے بڑھایا جاتا ہے۔

تاہم مجسٹریٹ نے واضح کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے رہنما اصول کے مطابق ’اے‘ کلاس کی رپورٹ کو حتمی رہورٹ تصور نہیں کیا جاتا بلکہ یہ عبوری رپورٹ تصور کی جاتی ہے، تاہم انہوں نے تفتیشی افسر اور ایس ایچ او کو ہدایت جاری کی کہ کیس کی سہ ماہی رپورٹ پیش کی جائے۔

مجسٹریٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 50،50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ملزمان کو رہا کیا جائے۔

مقتول کی بہن وردہ مسعود کی شکایت پر ساحل پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 (قتل) اور دفعہ 31 (مشترکہ ارادے) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں