عالمی بینک نے سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب ڈالر لگایا ہے، شیریٰ رحمٰن

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2022
شیری رحمٰن نے کہا کہ میں دوٹوک الفاظ میں کہنا چاہوں گی کہ یہی نازی سلیوٹ ہوتا ہے — فوٹو: پی ٹی وی
شیری رحمٰن نے کہا کہ میں دوٹوک الفاظ میں کہنا چاہوں گی کہ یہی نازی سلیوٹ ہوتا ہے — فوٹو: پی ٹی وی

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ عالمی بینک نے سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب ڈالر لگایا ہے جبکہ 21 لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیریں رحمٰن کا کہنا تھا کہ سندھ میں 79 فیصد فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، بلوچستان میں 53 فیصد، پنجاب میں 15 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 14 فیصد جبکہ آزاد کشمیر میں 25 فیصد فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پانی اب بھی بہت جگہوں پر کھڑا ہے، حالات بہت سنگین ہیں، وہ علاقے جو سمندر کی سطح سے نیچے ہیں وہاں سے پانی نکالنا بہت مشکل ہے اور یہ عمل ہمارے لیے پہلی دفعہ کا ہے، یہ دنیا کی سب سے بڑی موسمیاتی آفت بن چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے فنڈز کی کمی، حکومت ماحولیاتی تبدیلی کیلئے مختص فنڈ استعمال کرنے پر مجبور

انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کی شدت ایسی ہے کہ پوری دنیا نے ایک صدی میں ایسی موسمیاتی تباہی نہیں دیکھی، اس نے ریکارڈ توڑے ہیں۔

حالیہ سیلاب سے نقصانات کی بابت بتاتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا کہ عالمی بینک نے سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب ڈالر لگایا ہے، 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں وہ بھی بہت بڑی تعداد ہے، یہ تعداد آسٹریلیا جیسے بڑے ملک کی آبادی سے بھی 70 لاکھ زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2010 کے سیلاب میں 2 کروڑ افراد متاثر تھے، 2 کروڑ سے زائد افراد اب بھی ضرورت کے منتظر ہیں، پرتگال اور سوئٹزرلینڈ کی آبادی کو ملا لیں تب بھی یہ تعداد زیاد ہے، اس سے نبردآزما ہونا کسی ایک ملک کے لیے بہت مشکل کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریسکیو کا کام ختم ہوگیا ہے، اموات کی خبریں نہیں آرہی لیکن ریلیف آپریشن اب بھی چل رہا ہے، اتنے لمبے عرصے کے لیے کوئی بھی ریلیف آپریشن کے لیے نہیں گیا، وسط جون سے اب تک 1770 افراد لقمہ اجل بنے ہیں، اور 12 ہزار 867 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 13 ہزار کلو میٹر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں، ان کی ازسرنو تعمیر کے لیے کتنے وسائل درکار ہوں گے، 436 پُل مکمل تباہ ہوچکے ہیں، صحت کی 1400 سہولیات میں سے زیادہ تر تباہ یا ناکارہ ہوچکی ہیں، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد وشمار کے مطابق 82 لاکھ افراد کو فوری طور پر صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: سیلاب سے 3 کروڑ افراد بے گھر ہوگئے، اقوام متحدہ سے اپیل کریں گے، شیری رحمٰن

انہوں نے کہا کہ سندھ کے گیارہ اضلاع میں اب بھی پانی کھڑا ہے، وہاں کبھی اتنی بارشیں نہیں ہوئیں، 6 لاکھ خیمے بن چکے ہیں، اب بھی 79 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 94 ملین ایکڑ پر فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، اس وجہ سے براہ راست ایک کروڑ 46 لاکھ افراد متاثر ہوں گے، اس سے ملک کے درآمدی بل پر بھی بڑا اثر پڑے گا، گندم کی بوائی کا سیزن آرہا ہے، اس میں بھی لوگ متاثر ہوں گے، اس وجہ سے ایک کروڑ 54 لاکھ افراد مزید غربت کی لکیر کے نیچے چلے جائیں گے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ ان افراد میں سے 71 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، اقوام متحدہ نے اس کے لیے 39 لاکھ افراد کو ٹارگٹ کیا ہے، ان کے لیے امدادی کاررائیوں میں تیزی لائیں گے، کُل متاثرہ افراد میں 70 فیصد بچے اور خواتین شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 70 ارب کی رقم میں سے 65 ارب روپے متاثرہ خاندانوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔

وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی نے مزید کہا کہ جہاں تک معاشی نقصانات کی بات ہے، کپاس، چاول اور گنے کی فصلوں کو براہ راست نقصان ہوگا، ان تمام مسائل کا طویل المدتی اثر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مون سون بارشوں سے 77 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، شیری رحمٰن

انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان سندھ کا ہوا ہے، سندھ میں 79 فیصد فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، بلوچستان میں 53 فیصد، پنجاب میں 15 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 14 فیصد جبکہ آزاد کشمیر میں 25 فیصد فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 21 لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں، اس میں 89 فیصد گھر سندھ کے ہیں۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ امداد آتی جارہی ہے لیکن بڑے پیمانے پر نقصان کی وجہ سے امداد ہر طرح سے ناکافی ہے، عالمی اداروں نے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت ہے، وہ اس وقت بھی بجائے ہاتھ بٹانے کے انتہا پسندی کی سیاست کر رہے ہیں، وہ ہر بات پر جھوٹ کا نیا پلندہ ڈالتے ہیں، عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ (عمران خان) نوجوان نسل کو لانگ مارچ پر آمادہ کر رہے ہیں اور لوگوں سے حلف لے رہے ہیں، میں دوٹوک الفاظ میں کہنا چاہوں گی کہ یہی نازی سلیوٹ ہوتا ہے، اور یہی بیانیہ ہوتا تھا کہ کیا فرق پڑتا ہے، ہم نے کیا کیا ہے؟ روزانہ سینہ زوری کا نیا اسٹینڈرڈ سیٹ ہوتا تھا، وہ ہٹلر تھا، اور لوگ کہتے تھے کہ یہ تو مقبول ہیں، تو مقبولیت ان کو ان کے ملک کو کہاں لے گئی؟

یہ بھی پڑھیں: موسمِ سرما کی آمد قریب، سیلاب متاثرین کی اکثریت خیموں میں سونے پر مجبور

شیری رحمٰن نے کہا کہ دوسروں پر الزام لگاتے رہے، ووٹن کرکٹ کیس میں خیرات کے لیے میچ کھیلے گئے اور خیرات کا پیسہ کہاں پہنچا؟ اس کی منی ٹریل اب تک چھپی ہوئی ہے، ہر طرف سے ان کی چوری کے شواہد سامنے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ (عمران خان) کہتے ہیں کہ میرے فیکس بن رہے ہیں سب سے بڑے ڈیپ فیک تو وہ خود ہیں۔

اوفایق وزیر نے کہا کہ یہ تسلیم کرتی ہوں کہ ریکارڈنگز نہیں ہونی چاہئیں، اس کی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں، پہلے کہتے تھے سب کو پتا ہونا چاہیے، لہٰذا سائفر کی ریکارڈنگ ہو تو کیا ہوا؟ لیکن انہیں اب تحقیقات کا خیال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس نے سائفر غائب بھی کردیا، یہ جرم ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ان کا تحفظ ہوتا ہے، جو ٹاپ سیکرٹ ہوتے ہیں وہ صرف 6 جگہوں پر جاتے ہیں، اور کوئی ان کو غائب نہیں کرسکتا۔

امدادی سامان کی تقسیم میں بدنظمی سے متعلق سوال کے جواب میں شیری رحمٰن نے کہا کہ اب بھی 2 کروڑ سے زائد افراد کو خوراک کی اشد ضرورت ہے، تھوڑی بہت بدنظمی تو ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے سفارتی تنہائی ختم کرنے کا وہ کام شروع کیا ہے جدھر عمران خان ملک کو لے گئے تھے، اس وجہ سے انہیں مستقل بنیادوں پر پیروں اور جہازوں پر رہنا پڑا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں