جوہری اثاثوں پر جو بائیڈن کا بیان، امریکی سفیرکو دفتر خارجہ طلب کرکے ڈیمارش کیا گیا

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2022
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کراچی میں پریس کانفرنس کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کراچی میں پریس کانفرنس کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفترخارجہ طلب کرکے صدر جوبائیڈن کے جوہری اثاثوں کے حوالے سے بیان پر شدید ڈیمارش کیا گیا اور پاکستان کی ناراضی سے آگاہ کردیا گیا۔

ترجمان دفترخارجہ عاصم افتخار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ قائم مقام سیکریٹری خارجہ جوہر سلیم نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو طلب کرکے پرزور انداز میں ڈیمارش کیا۔

ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے 14 اکتوبر کو کانگریشنل مہم کمیٹی کے استقبالیے کے دوران دیے گئے بیان پر ڈیمارش کے لیے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو طلب کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘امریکی سفیر کو غیرضروری پاکستان کی تشویش اور مایوسی سے آگاہ کردیا گیا، جو عملی طور پر حقیقت یا حقائق پر مبنی نہیں تھا’۔

ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ ‘یہ واضح کردیا گیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور جوہری پروگرام کے حوالے سے وہ بالکل درست ہیں اور بین الاقوامی معیار اور عالمی بہترین اقدامات پر عمل کر رہے ہیں، جو آئی اے ای اے سمیت دیگر معروف اقدامات ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عالمی امن اور استحکام کے لیے حقیقی خطرہ متعدد ریاستوں کی جانب سے عالمی اقدار کی خلاف ورزی سے ہے، جہاں مسلسل جوہری سیکیورٹی کے حادثات بلا احتساب ہوتے رہے ہیں’۔

ترجمان دفترخارجہ نے بیان میں کہا کہ ‘بڑی جوہری ریاستوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ اور سیکیورٹی کی نئی تنصیبات متعارف کروانے سے خطے کا توازن خراب ہوتا ہے’۔

دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘خطے اور عالمی امن کی تعمیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا مثبت عمل برقرار رہے اور دونوں فریقین کے درمیان قریبی تعاون ہو’۔

جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی کے سوالات بھارت سے پوچھنے چاہئیں، وزیرخارجہ

اس سے قبل وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان پر حکومت نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو آفیشل ڈیمارش کے لیے دفتر خارجہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر بائیڈن نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کئی ممالک کے بارے میں بات کی اور اس دوران پاکستان کے حوالے سے بھی بیان دیا جس پر میری وزیراعظم سے بات ہوئی ہے اور ہم نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو ایک سرکاری ڈیمارش کے لیے دفتر خارجہ طلب کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان شاید دنیا کی خطرناک ترین اقوام میں سے ایک ہے، امریکی صدر

انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی اور سیکیورٹی کا معاملہ ہے تو ہم نے عالمی جوہری ایجنسی کے تمام معیارات کو پورا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی اور حفاظت کے حوالے سے سوالات تو ہمارے پڑوسی بھارت سے پوچھنے چاہئیں جس نے حال ہی میں حادثاتی طور پر پاکستانی سرزمین پر میزائل فائر کیا تھا جو ناصرف غیر ذمے دارانہ عمل اور انتہائی غیرمحفوظ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے قابلیت پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے صدر بائیڈن کے بیان پر حیرانی ہوئی، میرا ماننا ہے کہ یہ محض غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے جو روابط کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے لیکن خوش قسمتی سے اب ہم روابط کی بحالی کے سفر پر گامزن ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پاکستان امریکا کے دوطرفہ تعلقات کی 75ویں سالگرہ سیکریٹری اسٹیٹ کی سطح پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں منائی گئی تھی اور اگر اس حوالے سے کوئی تشویش تھی تو اس ملاقات میں مجھ سے یہ معاملہ اٹھایا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک امریکا تعلقات میں سویلین حکومت کو ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے، امریکی محکمہ خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہم نے سفیر کو ڈیمارش کے لیے بلایا ہے، میرا خیال ہے کہ ہمیں انہیں اس موقف کی وضاحت کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ اس بیان سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، ہم اب تک روابط قائم کیے ہیں، اس کو مثبت انداز میں جاری رکھیں گے۔

بلاول نے مزید کہا کہ پاکستان کا بائیڈن کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم ان کے سفیر کو بلائیں گے اور ڈیمارش جاری کریں گے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی سرکاری تقریب تھی، نہ ہی یہ پارلیمنٹ سے خطاب یا انٹرویو تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک فنڈز اکٹھا کرنے کی تقریب تھی جس میں غیر روایتی گفتگو کی گئی اور اسی دوران یہ جملہ استعمال کیا گیا لہذا اسے اسی انداز میں دیکھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان کے ساتھ تعلقات ترک کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، رپورٹ

وزیر خارجہ نے کہا کہ جہاں تک ہماری اقتصادی سفارت کاری کا تعلق ہے تو مجھے یاد ہے کہ جب آصف زرداری صدر تھے تو انہوں نے ہماری خارجہ پالیسی امداد نہیں تجارت پر مبنی تھی، ہم نے امریکا کے ساتھ روابط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو تاریخی سطح تک پہنچایا اور عشروں بعد روس کے ساتھ تعلقات بھی زرداری کے ذریعے ہی بحال ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اسی پالیسی کو آگے چلانے اور اپنانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام ہوئی اور بدقسمتی سے ان کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک اور عرب ریاستوں میں اتحادیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو نقصان پہنچا تھا جسے ہم درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔

یاد رہے کہ جمعرات کو ڈیموکریٹک کانگریس کی مہم کمیٹی کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میرے خیال میں شاید دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک ہے کیونکہ ان کے ’جوہری ہتھیار غیرمنظم ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں