امریکی سینیٹرز کا پاکستانی شہریوں کو امیگریشن تحفظ دینے کا مطالبہ

18 اکتوبر 2022
سینیٹرز کے اس اقدام کو کئی انسانی گروپوں کی حمایت حاصل ہے— فائل فوٹو/سی این این
سینیٹرز کے اس اقدام کو کئی انسانی گروپوں کی حمایت حاصل ہے— فائل فوٹو/سی این این

امریکی قانون سازوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد بائیڈن انتظامیہ پر زور دے رہی ہے کہ رواں سال کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے اس وقت امریکا میں مقیم پاکستانی شہریوں کو عارضی تحفظ کا درجہ (ٹی پی ایس) دیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹی پی ایس کے نفاذ سے پاکستانی شہریوں کو امریکا میں رہنے کا موقع ملے گا۔

ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 2 سینیٹرز، کیلیفورنیا کے ڈیان فینسٹین اور نیویارک کے کرسٹن گلیبرینڈ، نے گزشتہ ماہ کے آخر میں امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھ کر ٹی پی ایس کا درجہ دینے پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، پاکستان سیلاب سے نمٹنے اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کیلئے متحرک

اس کے بعد دیگر قانون سازوں نے بھی اس اقدام کی حمایت کی، جن لوگوں نے اس خط پر دستخط کیے ان میں سینیٹر پیٹی مرے، ڈک ڈربن، ایمی کلبوشر، کوری بُکر، مارک وارنر، الزبتھ وارن، برنی سینڈرز، کرس وان ہولن، باب کیسی اور ٹینا اسمتھ شامل ہیں۔

ان میں سے تقریباً تمام اراکین سینئر سینیٹرز ہیں اور کچھ سینیٹ کی طاقتور کمیٹیوں کے سربراہ بھی ہیں۔

خط کے ساتھ جاری ہونے والے ایک بیان میں سینیٹرز نے دلیل دی کہ اس سال سیلاب اور بارشوں نے پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈبو دیا ہے اور تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جاری بحران نے بہت سے علاقوں کو ناقابل رہائش اور غیر محفوظ بنا دیا ہے اور تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان بھی پہنچایا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایک اور بڑا خطرہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیلاؤ ہے، جس میں اسہال، ملیریا، شدید سانس کے انفیکشن، جلد اور آنکھوں کے انفیکشن اور ٹائیفائیڈ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کا سیلاب زدہ علاقوں میں آبی امراض سے نمٹنے کیلئے امداد کا اعلان

سینیٹرز کا کہنا تھا کہ ضرورت مند پاکستانی شہریوں کو ٹی پی ایس فراہم کرنا ایک چھوٹا لیکن نتیجہ خیز قدم ہے جو امریکا اس قدرتی آفت سے ہونے والے انسانی مصائب کو فوری طور پر کم کرنے کے لیے اٹھا سکتا ہے اور انسانی امداد کی کوششوں اور تحفظات کے لیے پرعزم عالمی رہنما کے طور پر ہمارے مؤقف کی تصدیق کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں کیا پاکستان کو باضابطہ طور پر ٹی پی ایس کے درجے کی باضابطہ درخواست کرنی چاہئے، ہم بائیڈن انتظامیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ جاری پیش رفت کی نگرانی کرتے ہوئے اور پاکستانی کمیونٹی کی مدد کے بہترین طریقے پر غور کرتے ہوئے ایسی درخواست کو ترجیح دیں۔

اس اقدام کو کئی انسانی گروپوں کی حمایت حاصل ہے جن میں نیشنل امیگریشن فورم، ایشین امریکن فیڈریشن، دی کلائمیٹ جسٹس کولیبریٹو ایٹ دی نیشنل پارٹنرشپ فار نیو امریکنز، کمیونٹیز یونائیٹڈ فار اسٹیٹس اینڈ پروٹیکشن اور جنوبی ایشیائی امریکن لیڈنگ ٹوگیدر شامل ہیں۔

سینیٹرز نے خط میں لکھا کہ اس بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے امریکا کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہاں موجود پاکستانی شہریوں کو ایسے حالات میں واپس جانے پر مجبور نہ کیا جائے جو ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے امریکا کی مسلسل تعاون کی یقین دہانی

انہوں نے استدلال کیا کہ پاکستان میں موجودہ حالات ایک جاری ماحولیاتی تباہی کی نمائندگی کرتے ہیں جو ٹی پی ایس درجے کی بنیادوں میں سے ایک درجہ ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ لاکھوں افراد پہلے ہی اسہال، ملیریا، شدید سانس کے انفیکشن، جلد اور آنکھوں کے انفیکشن، ٹائیفائیڈ اور پانی کی فراہمی کی آلودگی کے نتیجے میں صحت کے دیگر مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔

ان کا استدلال تھا کہ پاکستانیوں کو ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور کرنا جہاں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بارشوں اور سیلاب کے اثرات کو سنگین قرار دیا ہے، امدادی سرگرمیوں میں ایک بڑی رکاوٹ ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے مزید نقل مکانی، خطے کو غیر مستحکم کرنے اور امریکی قومی سلامتی کے اہم مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی ہو گا۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر جو بائیڈن کا دنیا پر ’زیرِ آب‘ پاکستان کی مدد کیلئے زور

انہوں نے استدلال کیا کہ ٹی پی ایس کا استعمال اور ایک انسانی عنصر کے طور پر عمل درآمد ان افراد کو ضروری ریلیف فراہم کرے گا جو غیر معمولی ماحولیاتی اور صحت عامہ کی صورتحال کی وجہ سے اپنے ملک واپس نہیں جا سکتے۔

سینیٹرزنے لکھا کہ پاکستان کو ٹی پی ایس کے لیے نامزد کرنے سے تباہی پر آپ کی انتظامیہ کے کثیر الجہتی ردعمل میں بھی مدد ملے گی، اس سے پاکستانی انفراسٹرکچر پر دباؤ میں کمی آئے گی اور ان لوگوں کو محفوظ پناہ گاہ ملے گی جو اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے یا جن کے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں