رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

آئرلینڈ میں عام لوگ اس ڈر سے لکڑیاں جمع کر رہے ہیں کہ وہ یوکرین-روس تنازع کی وجہ سے آئندہ موسمِ سرما میں اپنے گھروں کو گرم نہیں رکھ سکیں گے۔ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ 5ویں ہفتے بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ایون جیل (جہاں سیاسی قیدیوں یعنی وہ لوگ جو حکومت مخالف ہوں) میں آگ لگ گئی۔ مبیّنہ طور پر جیل کی چھت پر کچھ خواتین قیدی ’حکومت مردہ باد‘ کے نعرے بھی لگارہی تھیں۔

اُدھر بھارت میں ہندو انتہا پسندی اس قدر پھیل چکی ہے کہ اب حکمران جماعت مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس دوران اوپیک نے پوری دنیا میں ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود تیل کی پیداوار کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بلاشبہ ایک عجیب و غریب دنیا ہے۔ پاکستان میں بھی ہم الگ ہی مشکلات سے دوچار ہیں۔ یہاں کچھ علاقے اب بھی زیرِ آب ہیں جہاں بے گھر خواتین اور بچے امداد کے منتظر ہیں۔ ان کی ویڈیوز مختلف ٹی وی چینلز پر چلتی ہیں لیکن اب تو عام لوگوں میں بھی اس حوالے سے حساسیت ختم ہوگئی ہے۔ وہ اپنی ضروریات اور مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ’ہم اس سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں؟‘

بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ وہ بڑھتی مہنگائی ہے جس پر حکومت قابو نہیں پاسکی۔ ماضی میں ترقی کے جس دور کا وعدہ کیا گیا تھا وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ سیلاب سے متعلق امدادی ویب سائٹ شہریوں سے رقم عطیہ کرنے کو تو کہتی ہے لیکن اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ دراصل بہت ہی کم لوگوں تک امداد پہنچی ہے۔ مختلف وزرا نے اس کی تردید کی ہے لیکن اس کی دلیل کے طور پر کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ بہرحال اگر ہم تصویروں کو ثبوت تسلیم کرلیں تو وہ یہی بتاتی ہیں کہ امداد جہاں پہنچنی چاہیے تھی وہاں نہیں پہنچی۔

لگتا ہے کہ یہ صورتحال ہمیں پریشان کرنے کے لیے کافی نہیں تھی۔ گزشتہ ہفتے ملک کے 11 حلقوں میں ضمنی انتخابات کروائے گئے تھے۔ ان انتخابات میں پاکستانی عوام کے پاس ایک ایسے لیڈر کو ووٹ دینے کا انتخاب تھا جس نے اسمبلی میں نہیں جانا تھا اور نتائج سے صاف ظاہر ہے کہ اکثریت نے اسی لیڈر کو منتخب کیا۔ پاکستانی ووٹر اس قدر مایوس ہیں کہ انہیں جمہوری نظام میں عدم نمائندگی بھی منظور ہے۔

مزید پڑھیے: ضمنی انتخابات میں شکست کے باوجود بھی حکومت کو کوئی خطرہ کیوں نہیں؟

حکومت میں موجود کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنما بس کسی انتخابی کامیابی اور ناکامی کی تفصیلات میں غرق ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستانی عوام جمہوریت سے مایوس ہیں۔

کچھ ماہ قبل جب نئی حکومت برسرِاقتدار آئی تو سیاستدان اپنے اپنے آبائی حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ ماضی میں یہ ماڈل کارگر رہا ہے، پاکستانیوں نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ لسانی یا گروہی بنیادوں پر ووٹ ڈالے ہیں اور وہ اب بھی ایسا کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی آبادیاتی تبدیلی نے اس رجحان کو بھی تبدیل کیا ہے اور شہرکاری کے نتیجے میں اب ہمارے سامنے لسانی اور گروہی طور پر متنوع آبادی سامنے آئی ہے جو پہلے نہیں تھی۔

شہرکاری اور اس کے نتیجے میں معاشی حالات میں آنے والی بہتری نے الگ ہی قسم کے پاکستانی ووٹر پیدا کیے ہیں۔ جو لوگ ان دیہاتوں سے چلے گئے ہیں جہاں ان کے بزرگ ابھی تک کسی جاگیردار یا کارپوریٹ فارم کے مالک یا صنعت کار کے زیرِ دست ہیں وہ اب سوچ سمجھ کر ہی ووٹ دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا لیڈر اس وقت کس جماعت کے ساتھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان جو کبھی مخصوص نشستوں پر جیت کا مکمل یقین رکھتے تھے وہ اب ایسا نہیں کرسکتے۔

مزید پڑھیے: پاکستانیوں میں وطن سے باہر جانے کی خواہش کیوں بڑھنے لگی؟

ایک دلیل یہ بھی ہے کہ صوبائی سطح پر دیہی علاقوں میں فنڈز غیر مساوی طور پر خرچ کیے جاتے ہیں جہاں یہ جاگیردار اور گروہی تعلقات اب بھی فنڈز ملنے کی ضمانت ہوتے ہیں جبکہ شہروں میں صورتحال ایسی نہیں ہے۔

مثال کے طور پر موجودہ حکومت زرعی شعبے کو مزید وسعت دینے کی کوشش کررہی ہے حالانکہ ان علاقوں سے کوئی ٹیکس ریونیو حاصل نہیں کیا جاتا کیونکہ زراعت پر (جیت کی ضمانت والے حلقوں کی وجہ سے) کبھی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس دوران کچرے کے ڈھیر، صاف پانی کی عدم فراہمی اور مسلسل بجلی کی بندش سے دوچار شہری ووٹر ناخوش رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہ بات صرف کراچی کے لیے ہی کہی جاسکتی تھی لیکن اب ملک کے ہر شہر کا یہی حال ہے۔

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ایسے وقت میں بحران کا شکار ہوئے ہیں جب امریکا اور یورپ سمیت کئی ممالک اپنے اپنے چیلنجز سے نمٹ رہے ہیں۔ پاکستان، ایران اور افغانستان جو توجہ حاصل کرسکتے تھے وہ عالمی تناظر میں کم ہوتی جارہی ہے۔

اگر امریکا میں وسط مدتی انتخابات متوقع طور ڈیموکریٹک اکثریت کو متاثر کرتے ہیں تو پھر ان کی جگہ ریپبلکنز لے لیں گے جو یوکرین یا پھر کسی کی بھی مدد کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

اسی طرح اگر یورپ میں ایندھن کا بحران شدت اختیار کرتا ہے اور یورپی عوام کو سردیاں گزارنے میں مشکل ہوتی ہے تو اس صورتحال کے نتیجے میں آنے والی سیاسی تباہی مزید تقسیم کرنے والی اور ممکنہ طور پر کہیں زیادہ آمرانہ ہوگی جو خود یورپی یونین کے اتحاد اور ہم آہنگی پر سوالیہ نشان کھڑی کرے گی۔

مزید پڑھیے: جمہوریت پر عوامی عدم اعتماد کیوں بڑھتا جارہا ہے؟

پاکستان کے لیے اس بار کوئی بیرونی نجات دہندہ نہیں آئے گا۔ اس طرح ایک یا دوسری جماعت کے امریکا سے اتحاد کرنے کے الزامات میں کوئی وزن نہیں۔ ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ اب ختم ہوچکی ہے، اس جنگ میں مغرب نے ایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر خرچ کردیے جو ان کے اندازے جتنا طاقتور تھا بھی نہیں۔ یوں پاکستان اب اس جنگ کی بنیاد پر کچھ حاصل نہیں کرسکتا پھر چاہے صدر بائیڈن پاکستان کو کتنا ہی خطرناک کیوں نہ سمجھیں۔

اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پاکستانی کیا جمہوریت کے ساتھ اپنے تمام تر تجربات کے باوجود اس کو اہمیت دیں گے؟ اس کے امکانات تو تاریک ہیں کیونکہ برازیل، بھارت، ہنگری اور یہاں تک کہ اٹلی بھی فاشزم یا پھر فاشزم اور آمریت دوست حکومتوں کی حمایت کرتا نظر آرہا ہے تاکہ خود کو اس منتشر عالمی نظام سے محفوظ رکھ سکے۔ انہیں شاید وہ تحفظ نہ مل سکے لیکن پھر وہی بات کہ سیاست حقائق کے بارے میں نہیں بلکہ تصورات اور خیالات کے بارے میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں صورتحال کچھ ایسی ہی ہے اور ملکی جمہوریت کی بقا کا دار و مدار بھی اسی پر ہے۔


یہ مضمون 19 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں