مارکیٹ میں پیناڈول کی متبادل ادویات وافر مقدار میں موجود

24 اکتوبر 2022
محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں متعدد برانڈ کے پاس ایک ہی فارمولے دستیاب ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں متعدد برانڈ کے پاس ایک ہی فارمولے دستیاب ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

اگرچہ گلیکسو اسمتھ کلائن نے خام مال کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیراسیٹامول کے مقبول ترین برانڈز میں سے ایک ’پیناڈول‘ کی پیداوار معطل کردی ہے، لیکن مارکیٹ میں اس دوا کی کوئی کمی نہیں ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اسی فارمولے کے مختلف برانڈز مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’کمپنی کو نقصان ہو رہا ہے‘، دواساز ادارے کا پیناڈول کی پیداوار روکنے کا اعلان

اسلام آباد محکمہ صحت کوالٹی کنٹرول بورڈ کے سیکریٹری سردار شبیر نے ڈان کو بتایا کہ پیناڈول کی پیداوار بند کرنے کے بعد پیراسٹامول کا استعمال نہ کرنا بے وقوفی ہوگی کیونکہ اس کے علاوہ بھی ہمارے پاس بہت سے متبادل ہیں جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ درد کی دوا بنانے کے لیے خام مال کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ان مصنوعات کی دستیابی متاثر ہوئی۔

تاہم سردار شبیر نے ملک میں ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر شہریوں کو پیناڈول دستیاب نہیں ہے تو متبادل استعمال کرنے کے لیے کئی برانڈ کی ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہیں، ان کو استعمال نہ کرنا بے وقوفی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کالپول۔ ایسیٹوفن، ایسیٹر، ایسیٹوسل، ایسیفِن پی، ایکٹی فیڈ پی، ایکٹیرون سی ایف، ایڈلجِن، ایڈ وِل، ایفی مول، المول، اماڈول، ایمبروجیسک، امول فورٹ، وائلاڈول، یانِل، زینک پال، زیپرائن اور دیگر برانڈز ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) میں رجسٹر ہیں اور ان کی ادویات کا استعمال صحت کے لیے محفوظ ہے۔

تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک میں تجارتی صورتحال بہتر نہ ہونے کے سبب کئی ملٹی نیشنل فارسوٹیکل کمپنیوں نے پاکستان سے تجارت ختم کردی ہے۔

پیراسیٹامول کی پیداوار میں معروف فارماسیوٹیکل کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن کا حصص 80 فیصد ہے، کمپنی نے بھی خبردار کیا ہے کہ خام مال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے صورتحال قابو میں نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: محکمہ صحت پیراسیٹامول گولیوں کی غیرقانونی ذخیرہ اندوزی کا ثبوت ڈھونڈنے میں ناکام

گلیکسو اسمتھ کلائن نے وزیراعظم آفس کو خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں پیراسٹامول (خام مال) کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ملک میں ادویات کے حوالے سے سنگین صورتحال سے متعلق بارہا آگاہ کیا گیا، کمپنی نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ پیراسٹامول سے تیار ہونے والی ادویات کی قیمتوں میں مناسب اضافہ کیا جائے۔

خط میں مزید بتایا گیا کہ 12 جنوری 2022 کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ڈرگ پرائس کمیٹی (ڈی پی سی) نے قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی تھی، بعد ازاں ڈرگ پرائس کمیٹی نے وفاقی کابینہ سے اضافے کی سفارش کی تھی تاہم وفاقی کابینہ نے کمپنی کو کوئی وجہ بتائے بغیر اضافے کی سفارش کو مسترد کردیا تھا۔

کمپنی کی جانب سے کہا گیا کہ 25 اگست 2022 کو دواساز کمپنی کو ڈریپ کی جانب سے روٹین کنزیومر پرائس انفلیشن (سی پی آئی) میں قیمتوں کے حوالے سے فیصلہ موصول ہوا، لیکن یہ فیصلہ پیراسٹامول کے خام مال کی قیمتوں میں اضافے کے مطابق نہیں تھا۔

خط میں مزید بتایا گیا کہ گزشتہ 12 ماہ میں ضرورت مند گاہک اور مریضوں کے لیے کمپنی نے پیراسٹامول کی 5 ارب 40 کروڑ ادویات کی پیداوار کی تھی، خط میں کووڈ 19 کے دوران ملک میں سنگین صورتحال، سیلاب کے بعد ڈینگی بخار کے کیسز میں اضافے کے دوران پیناڈول کی مسلسل سپلائی کی بھی یقینی بنایا گیا تھا۔

خط میں کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کمپنی نے ہمیشہ ادویات کی دستیابی کی یقین دہانی کروائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’مہنگی دوا کی فروخت کیلئے پیراسیٹامول کی قلت کی جارہی ہے‘

انہوں نے خط میں لکھا کہ ’کمپنی نے مذاکرات کے ذریعے اس معاملے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی، ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے وفاقی حکومت کو کئی بار درخواست کی تھی کہ ڈریپ کے تجویز کردہ پیراسٹامول کی قیمتوں میں مناسب اضافہ کیا جائے۔‘

اس کے علاوہ خط میں کہا گیا کہ پیناڈول کی پیداوار بند کرنے کے حوالے سے مجبوراً اس فیصلے کا اعلان کرنا پڑا، یہ معاہدے کی ایسی صورت ہوتی ہے جو کسی غیر معمولی صورتحال میں تمام فریقین کو ذمہ داری سے آزاد کر دیتی ہے۔

قومی وزارت صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ ڈریپ اور وزارت نے مشاہدہ کیا اور اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پیراسٹامول کی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہیے، تاہم وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ادویات کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ’ہم نے کمپنی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر وزیر اعظم آفس سے براہ راست بات کریں کیونکہ ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے’۔

تبصرے (0) بند ہیں