اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکومت کو ہیومن رائٹس کورٹ کے قیام کا حکم

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2022
چیف جسٹس نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں کمپلینٹ سیل قائم کریں— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں کمپلینٹ سیل قائم کریں— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو ایک ہفتے میں انسانی حقوق کی خصوصی عدالت قائم کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انسانی حقوق کمیشن نے بہترین رپورٹ پیش کی، عدالت اسے سراہتی ہے، رپورٹ پڑھ کر تو لگتا ہے کہ اڈیالہ جیل حراستی مرکز ہے، رپورٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ جیل میں قیدیوں پر تشدد ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونا خود سے تشدد ہے، گنجائش سے زیادہ قیدی ہونا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اس دوران چیف جسٹس نے اڈیالہ جیل میں شکایت سیل قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل میں کمپلینٹ سیل قائم کریں، یقینی بنائیں کہ معلومات دینے والے قیدیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے مکالمہ کیا کہ عدالت نے 2020 میں فیصلہ آپ کی حکومت کو بھیجا تھا، جو رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں خوفناک ہیں، اسد عمر نے کہا کہ میں رپورٹس لے کر پنجاب کی انتظامیہ سے بات کر لیتا ہوں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسد عمر سے استفسار کیا کہ کس کو اس سب کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے؟ اسد عمر نے کہا کہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے اسے کمزور طبقے کی پرواہ ہی نہیں ہوتی، صوبے میں اب بھی آپ کی حکومت ہے، اڈیالہ جیل حراستی مرکز ہے، وہاں کالونیل سوچ ہی موجود ہے۔

مزید پڑھیں: اڈیالہ جیل حراستی مرکز قرار، قیدیوں سے بدترین سلوک کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

اسد عمر نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھتا ہوں، 70 سالہ اعظم سواتی کا معاملہ بھی دیکھا جانا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایک کر کے سب کو دیکھا جانا ہے، بے آواز لوگوں کی کوئی آواز نہیں بنتا، گزشتہ دنوں میں اڈیالہ جیل کا دورہ کیا، آپ کو معلوم ہے میں جیل گیا تو ایک قیدی نے مجھے کیا کہا؟ اس نے کہا کہ آپ چلے جائیں گے تو یہ ہمیں بھگتنا پڑے گا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت کی ترجیحات عام لوگوں کے لیے نہیں ہیں، ایک غریب عورت کی درخواست پر عدالت نے یہ معاملہ اٹھایا، اس خاتون کے پاس وکیل کرنے کے پیسے تک موجود نہیں تھے، اس خاتون کے بیٹے کے پاس پانچ ہزار روپے نہ ہونے پر اسے بری طرح مارا گیا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جیل میں ملاقاتی کھانا لے کر جاتے ہیں، جیل عملہ آدھا کھا جاتا ہے، انسانی حقوق سے متعلق قانون بڑا مضبوط قانون ہے، قانون ساز اسمبلی نے بہترین قانون بنایا لیکن کسی نے دیکھا ہی نہیں، یہ قانون انسانی حقوق کمیشن کو بہت بااختیار بناتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون کے تحت مسلح افواج میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک ہفتے میں انسانی حقوق کی خصوصی عدالت قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن جو بھی کیس بھیجے، ٹرائل خصوصی عدالت میں چلے گا۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی: قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر اڈیالہ جیل کے سینئر اہلکار، 27 وارڈرز کا تبادلہ

اس دوران سیکریٹری وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ ہمارے پاس افسران موجود نہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری انسانی حقوق کے پاس عملہ نہیں تو ڈیپوٹیشن پر افسران فراہم کیے جائیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب افسران کا ٹرائل انسانی حقوق کی خصوصی عدالتوں میں ہوگا، دوران حراست تشدد کسی طور بھی قابل برداشت نہیں۔

سیکریٹری وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ کم عمر بچوں کے لیے ری ہیبلی ٹیشن سینٹرز موجود نہیں ہیں، ہم نے 11 کم عمر بچوں کی ضمانت کرائی ہے، ان کو رکھنے کی جگہ نہیں، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی انتظام نہیں تو وزیر اعظم یا وزیر اعلی ہاؤس میں رکھیں، ان بچوں کے رہنے کے لیے آج ہی انتظامات کیے جائیں۔

سیکریٹری وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ ہمارے پاس 4 ہزار لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہے، کیسے کام چلے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اسد عمر کی پارٹی کی پنجاب میں حکومت ہے، دیکھتے ہیں وہ 2 روز میں کیا تبدیلی لاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی: قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر اڈیالہ جیل کے سینئر اہلکار، 27 وارڈرز کا تبادلہ

اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی جیل خانہ جات اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کارروائی کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری انسانی حقوق کو اڈیالہ جیل سے متعلق رپورٹس پبلک کرنے کا حکم بھی دیا۔

چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ان قیدیوں یا ان کی فیملیز کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ یقینی بنایا جائے کہ قیدیوں یا ان کی فیملیز کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے، ہیومن رائٹس کمیشن اِن قیدیوں کی فیملیز سے بھی رابطہ کرے، اس عدالت کو ہر روز شکایات موصول ہو رہی ہیں، یہ عدالت وہ شکایات انسانی حقوق کمیشن کو بھیجتی رہے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں