الیکشن کمیشن کی عمران خان کے حق میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دینے کی استدعا

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2022
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیج رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیج رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے چیئرمین عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کے حق میں ہونے والے مختلف ہائی کورٹس کے احکامات کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی جب کہ انہوں نے کمیشن کی جانب سے جاری توہین کے نوٹسز کو چیلنج کیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ سجیل شہریار سواتی کے توسط سے ای سی پی نے اپنی 6 درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا کہ جب سے ہائی کورٹس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو عبوری ریلیف دیا ہے اور ای سی پی کو معاملے کی سماعت جاری رکھنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ درخواستوں پر فیصلوں تک کوئی حتمی حکم جاری کرنے سے روک دیا، اس وقت سے پی ٹی آئی رہنما الیکشن کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہو رہے۔

اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے احکامات نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کسی بھی منفی کارروائی کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد کمیشن کی کارروائی عملی طور پر تعطل کا شکار ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین الیکشن کمیشن: عمران خان سمیت دیگر پارٹی رہنما ذاتی حیثیت میں دوبارہ طلب

اس سے قبل 13 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس میں مختلف ہائی کورٹس کے سامنے زیر التوا تمام 6 درخواستوں کو یکجا کرنے اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس میں تبدیل کرنے کی استدعا کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ اگست اور ستمبر 2022 کے دوران الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر، فواد چوہدری، میاں شبیر اسمٰعیل، دانیال خالد کھوکھر کے خلاف توہین کے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے نوٹس جاری کیے تھے، نوٹس میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ذاتی طور پر یا اپنے وکیل کے ذریعے کمیشن کے سامنے ہونے کا حکم دیا تھا۔

مبینہ طور پر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے خلاف ’غیر شائستہ‘ زبان استعمال کرنے پر نوٹس جاری کیے گئے، نوٹس کو وصول کرنے والوں نے انہیں مختلف ہائی کورٹس میں چیلنج کردیا۔

مزید پڑھیں: عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری

پی ٹی آئی رہنماؤں نے لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سمیت مختلف ہائی کورٹس سے رجوع کرتے ہوئے نوٹس اور الیکشن کمیشن کے توہین کے دائرہ اختیار کو چیلنج کردیا، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کو توہین کی سزا کا اختیار دینے والا الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 10 آئین کے خلاف ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے ہائی کورٹس سے کیسز میں ریلیف بھی طلب کیا تھا۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ نے 7 ستمبر 2022 کو پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا بھی حکم دیا تھا۔

تمام 6 درخواستیں ایک ہی معاملے سے متعلق ہیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 10 کے خلاف دائر درخواستوں پر قانونی سوالات کے حوالے سے ہیں۔

نئی درخواستوں میں الیکشن کمیشن نے استدلال کیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 10 پر کارروائی معطل کرنے سے متعلق ہائی کورٹ کے احکامات غیر قانونی ہیں، ان احکامات میں الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی رہنما کے خلاف ’منفی کارروائی‘ کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا پنجاب حکومت کو 7 روز میں بلدیاتی قانون بنانے کا حکم

درخواستوں میں مؤقف اپنایا گیا کہ ہائی کورٹس کے احکامات نے بظاہر الیکشن ایکٹ کی کسی شق کو معطل نہیں کیا لیکن یہ احکامات غیر قانونی تھے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 10 کے تحت الیکشن کمیشن کو حاصل اختیارات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹس نے عملی طور پر پی ٹی آئی رہنماؤں کو حتمی ریلیف دے دیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ عبوری مرحلے پر کوئی حتمی ریلیف نہیں دیا جاسکتا جب کہ عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو اپنا مؤقف پیش کرنے اور قانونی تنازعات حل کرنے کے لیے سماعت کا موقع فراہم نہ کیا ہو۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹس کے احکامات نے الیکشن کمیشن کے اختیار کو مجروح اور غیر مؤثر کردیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں