ارشد شریف کو جاری کردہ 'تھریٹ الرٹ' سے وزیراعلیٰ کا کوئی تعلق نہیں تھا، بیرسٹر سیف

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2022
بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس طرح کے الرٹ کا معاملہ سی ٹی ڈی کے لیے معمول کی سرگرمی ہے—تصویر: ٹوئٹر
بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس طرح کے الرٹ کا معاملہ سی ٹی ڈی کے لیے معمول کی سرگرمی ہے—تصویر: ٹوئٹر

خیبر پختونخوا حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے سینئر ٹی وی اینکر ارشد شریف کی جان کو لاحق خطرات سے متعلق خط کے اجرا سے وزیر اعلیٰ محمود خان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں سال اگست کے اوائل میں ارشد شریف کو نشانہ بنانے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی) کے ایک الگ ہونے والے گروپ کے منصوبے کے بارے میں ایک 'تھریٹ الرٹ' جاری کیا گیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کا خط وزیر اعلیٰ محمود خان کی ہدایت پر جاری کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نئی تفصیلات سامنے آنے پر ارشد شریف کے قتل کا معاملہ مزید پیچیدہ

ایک ویڈیو بیان میں صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ سی ٹی ڈی صوبائی حکومت کا فرنٹ لائن ادارہ ہے اور دہشت گردی کے خطرات سے متعلق الرٹ جاری کرنا اور دہشت گردی کے خلاف کریک ڈاؤن اس کا مینڈیٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے وزیر اعلی (محمود خان) کا سی ٹی ڈی کے تھریٹ الرٹس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا'۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس طرح کے الرٹ کا معاملہ سی ٹی ڈی کے لیے 'معمول کی سرگرمی' ہے، انٹیلی جنس بیورو، سی ٹی ڈی اور دیگر ایجنسیاں بھی تھریٹ الرٹ جاری کرتی ہیں۔

ترجمان نے اصرار کیا کہ جہاں تک ارشد شریف کا تعلق ہے صحافی اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں مل رہی تھیں، یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ (مقتول) صحافی کے اپنے بیانات سے ہی یہ ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سی ٹی ڈی کا تھریٹ الرٹ غلط ہوتا تو ارشد شریف کو کینیا میں قتل نہیں کیا جاتا۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی سازش پاکستان میں ہوئی، ثبوت مٹا دیے گئے، فیصل واڈا

ارشد کی جانب سے پاکستان چھوڑنے کے لیے باچا خان ایئرپورٹ، پشاور کے استعمال کے حوالے سے بیرسٹر سیف نے کہا کہ ایئرپورٹ اور اس کی نگرانی کرنے والے دیگر ادارے وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مرکز کے پاس وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، انسداد منشیات فورس اور کسٹمز کا انتظامی کنٹرول ہے، اگر وفاقی حکومت کو ارشد شریف کے ملک سے جانے پر کوئی اعتراض تھا تو وہ انہیں آسانی سے روک سکتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پشاور ایئرپورٹ ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے اور کوئی بھی اس سے سفر کر سکتا ہے۔

پشاور میں مقتول صحافی کے سرکاری پروٹوکول کے بارے میں صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ صوبائی حکومت عام طور پر درخواست پر سینئر صحافی سمیت اہم شخصیات کو پروٹوکول افسران کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی ٹیم کی تشکیل نو، آئی ایس آئی افسر کو نکال دیا گیا

انہوں نے مزید کہا کہ پروٹوکول افسران نے ان افراد کو ایئرپورٹ پہنچنے تک سہولت فراہم کی اور ایئرپورٹ کے اندر کے معاملات وفاقی حکام کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

خیال رہے کہ ایک روز قبل آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ کے پی حکومت نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی ہدایت پر 5 اگست کو ایک 'تھریٹ الرٹ' خط جاری کیا تھا جس میں اعلان کیا گیا کہ ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والا گروپ 'ارشد شریف کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے'۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ 'ایسی کوئی معلومات متعلقہ اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کی گئیں، اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ جاری کرنے کا مقصد ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا'۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ اطلاعات تھیں کہ وہ (ارشد شریف) ملک چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن انہیں یاد دلایا جاتا رہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور 10 اگست کو پشاور ایئرپورٹ سے پروز ای کے-637 کے ذریعے وہ دبئی کے لیے روانہ ہوئے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا کینیا سے ارشد شریف کی ’پراسرار موت‘ کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ

خیال رہے کہ مذکورہ الرٹ میں کہا گیا تھا کہ کچھ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ایک الگ ہونے والے گروپ نے سور کاریز، اسپن بولدک، افغانستان میں ہونے والی اپنی میٹنگ میں اینکر پرسن ارشد شریف کو نشانہ بنانے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 'اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دہشت گردوں نے ہدف کی جاسوسی کرنے اور اسے مناسب جگہ ممکنہ طور پر راولپنڈی اور اس کے اطراف کے علاقوں میں ڈھونڈ نکالنے کے لیے حتمی شکل دی ہے'۔

الرٹ میں لکھا گیا کہ اس صورت حال کی روشنی میں انتہائی چوکسی اور تمام ممکنہ حفاظتی اقدامات کو اپنانا چاہیے جس میں ہدف کی حساسیت کے ساتھ اس کی غیر ضروری نقل و حرکت کو روکنے کی مخصوص ہدایات بھی شامل ہیں۔

ایڈوائزری ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس، سی ٹی ڈی، پنجاب کے ساتھ بھی شیئر کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں