اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


میں نے اپنی 15 سالہ ملازمت کے دوران سب سے طویل عرصے کی پرواز امریکا کے شہر شکاگو کی تھی۔ تقریباً 16 دن پر مشتمل اس سفر میں پہلے اسپین کے شہر بارسلونا جانا ہوتا تھا اور پھر شکاگو۔ اسی طرح واپسی پر دوبارہ بارسلونا رک کر پاکستان واپسی ہوتی تھی۔

ایسے سفر میں اگر ساتھی بھی اچھے مل جائیں تو بہت مزا آتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے لیکن آپ کو بتا رہا ہوں کہ فضائی میزبان اپنے گھر والوں سے زیادہ وقت جہاز پر گزارتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ وہ گھر پر اپنا آدھا وقت تو سو کر گزار دیتے ہیں اور جب آرام کا وقت پورا ہوتا ہے تو اگلی پرواز تیار ہوتی ہے۔

بارسلونا پہنچے تو گرم مرطوب موسم نے استقبال کیا جس سے دل کو راحت ہوئی۔ مجھے سرد موسم سے کوئی خاص رغبت نہیں کیونکہ اس موسم میں سفر کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور سامان بھی زیادہ باندھنا پڑتا ہے۔ سوٹ کیس میں جیکٹ، سوئٹر، گرم پتلونیں اور پاجامے بہت زیادہ جگہ گھیر لیتے ہیں۔

مجھے لگا اسپین کے لوگ بہت دھیمے مزاج کے ہوں گے کیونکہ ہوائی اڈے پر کافی جگہ خوش آمدیدی پیغامات کے ساتھ ’ہولا‘ لکھا ہوا تھا۔ لیکن بعد کے واقعات میں ثابت ہوا کہ ایسا کچھ نہیں تھا اور یہ صرف ’ہیلو‘ کا متبادل تھا۔ ہوٹل کی بس میں بیٹھے اور شہر کا نظارہ کرنے لگے۔ ہوٹل آنے سے پہلے ایک طویل پٹی ساحل سمندر کی نظر آئی جس کو دیکھ کر آنکھوں کو راحت ملی۔

ہلٹن ہوٹل کی عمارت شاندار اور پُرشکوہ تھی۔ اندر داخل ہوئے تو مرکزی لابی کی تزئین و آرائش کو زبردست پایا۔ بھئی آخر غیر ملکی لابی تھی۔ کچھ دیواروں پر بڑے بڑے آرائشی تھال نصب تھے اور ایک جانب کالے رنگ کا بڑا سا پیانو رکھا تھا جیسا پاکستانی فلموں کی ہیروئین کے ڈرائنگ روم میں رکھا ہوتا تھا۔ اس کو بجانے کی ناکام کوشش بھی کی۔

بارسلونا کے ہوٹل میں پیانو بجانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے—تصویر: لکھاری
بارسلونا کے ہوٹل میں پیانو بجانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے—تصویر: لکھاری

اتنے میں ایک اور ایئر لائن کا عملہ بھی آن پہنچا۔ طویل قامت اور مضبوط خواتین پر مشتمل عملہ دیکھ کر میں سمجھا کہ ان کا تعلق یقیناً ’ایئر حبشہ‘ سے ہوگا مگر معلوم ہوا کہ وہ ’فِن ایئر‘ نامی ایئر لائن کا عملہ ہے۔

کمرے کی چابی ملی تو لفٹ کے پاس کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ اسی عملے میں سے ایک خاتون بھی برابر آکر کھڑی ہوگئیں۔ میں ان کے سامنے ایسا لگ رہا تھا جیسے ایفل ٹاور کے ساتھ بٹر اسکاچ ٹافی رکھ دی جائے۔ علیک سلیک ہوئی، لفٹ آئی اور اندر داخل ہوئے۔ چوتھے فلور تک پہنچنے سے پہلے وہ مجھ سے 40 مختلف موضوعات پر بات کرچکی تھیں۔ میں لفٹ سے باہر نکلا تو انہوں نے مجھے ’بائے ہنی‘ کہا۔ میرا اندازہ ٹھیک نکلا، وہ مجھے ٹافی ہی سمجھ رہی تھیں۔

ناشتے میں اس ذات کا رسیلا اور سریلا خربوزہ کھایا کہ جانے کب اس کا رس میری ٹھوڑی کو سیراب کرگیا۔ ناشتہ گاہ میں انواع و اقسام کے پھل سجے دیکھ کر مجھے الف لیلیٰ کے کسی تاجر کے ڈرائینگ روم کا خیال آتا رہا۔ ایسے ظالم پھل میں نے اس وقت تک کہیں نہیں کھائے تھے۔

ایک دوست نے بارسلونا میں اپنے عزیز کے لیے کچھ تحائف بھیجے تھے۔ وہ لینے آئے تو اصرار کرنے لگے کہ ساتھ چلیں آپ کو شہر گھما لاؤں۔ تکلفات کا کچھ مکر و فریب پیش کرکے میں تیار ہوگیا۔ ان صاحب کا ایک ریسٹورینٹ تھا۔ شہر کیا گھومنا تھا وہ سبزی منڈی جا پہنچے۔ جاپانی پہلوانوں سے مشابہہ کئی کلو آلو خریدے، مائل بہ فربہی شملہ اور اسی قبیل کی دوسری لال پیلی مرچوں کے ساتھ دودھ اور مشروبات کے ڈبے خریدے کہ ان کو اپنے ریسٹورینٹ کے لیے اسٹاک پورا کرنا تھا۔ ایسی ’تن ساز‘ سبزیاں میں نے کرہ ارض پر آج تک اور کہیں نہیں دیکھیں۔ خیر اس کے بعد ہم نے شہر بھی گھوما۔

2 دن کے بعد شکاگو کی پرواز تھی جو بخیر و عافیت مکمل ہوئی۔ ہوٹل ہائی وے کے کنارے تھا مگر پُرسکون تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک لمبی راہداری تھی اور پھر جو میں نے دیکھا اس پر یقین کرنے کے لیے مجھے اپنے ہاتھ پر چک مارنا پڑا کہ میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ میرے کمرے کے اندر ایک ’جکوزی‘ (Jacuzzi) تھا۔ میں نے سوچا کہ نہ تو میں کوئی ’منشیاتی سیٹھ‘ ہوں اور نہ ہی کوئی سرکاری عہدیدار، پھر یہ مہربانی کیوں کر ہوئی ہے؟

شکاگو کی اسکائے لائن—تصویر: لکھاری
شکاگو کی اسکائے لائن—تصویر: لکھاری

   مشی گن ایوینیو، شکاگو—تصویر: لکھاری
مشی گن ایوینیو، شکاگو—تصویر: لکھاری

کچھ دیر بے یقینی کی کیفیت میں رہ کر مجھے ہوش آیا تو میں نے احتیاطاً بیت الخلا بھی چیک کرنا مناسب سمجھا کہ کہیں نہانے کے ساتھ ساتھ دوسرے پروگرام کا انتظام بھی کمرے کے اندر ہی تو نہیں کیا گیا۔ شکر ہے بیت الخلا کے لوازمات پورے تھے۔ ٹونٹی کھولی تو غراروں کی آواز آئی۔ استقبالیہ فون کرکے صورتحال بتائی تو انہوں نے انگریزی میں جو وجوہات بتائیں اس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ پانی کا ٹب خراب ہے اسی لیے تم جیسے متوسط آدمی کو دیا گیا ہے تاکہ تم کمرے میں پارٹی نہ کرسکو۔

اگلے دن ایک ساتھی کا دوست ملنے آیا جس نے ہمیں شکاگو گھمایا۔ ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی بوئنگ کا ایک اسٹور بھی وہاں دیکھا۔ اندر گئے تو اعزازی لوازمات قیمتاً فروخت ہوتے پائے۔ ارادہ تو کافی کچھ خریدنے کا تھا لیکن قیمتیں جہاز کی قیمت سے کچھ ہی کم تھیں لہٰذا چھوٹا سا فوم کا بنا جمبو جہاز نشانی کے طور پر خریدا۔ شہر کیا تھا عمارتوں کا جنگل تھا۔ شکاگو کی ایک مشہور سوغات ’جوڈانو‘ (Giordano) کا پیزا کھایا۔ اس پیزے میں پنیر کی اتنی زیادتی تھی جیسے کسی غریب کے سالن میں پانی ملے شوربے کی۔ لیکن ذائقہ ایسا کہ لگتا تھا اٹلی سے ہی تازہ بن کے آیا ہے۔

بوئنگ کمپنی کا ایک اسٹور—تصویر: لکھاری
بوئنگ کمپنی کا ایک اسٹور—تصویر: لکھاری

شکاگو فیلڈ میوزیم—تصویر: لکھاری
شکاگو فیلڈ میوزیم—تصویر: لکھاری

  مرینہ سٹی ٹاور، شکاگو—تصویر: لکھاری
مرینہ سٹی ٹاور، شکاگو—تصویر: لکھاری

ہوٹل کے سامنے والا ہائی وے کراس کرکے ایک بہت بڑا اسٹور مشہورِ زمانہ ’Costco‘ کا تھا۔ یہاں سب کچھ ایک چھت کے نیچے ملتا تھا۔ ہمیں کھانے پینے کو کچھ سامان تو بہرحال چاہیے تھا کہ اتنے دن کا راشن گھر سے لے کر تو نہیں چل سکتے تھے۔ ہم کچھ ساتھی مل کر اسٹور گئے اور تیار مچھلی (جس کو بس مائیکرو ویو میں گرم کرنا ہوتا تھا)، یونانی سلاد کے تیار پیکٹ (Greek salad)، عربی ملیدہ جسے ہمس (Hummus) کہا جاتا ہے اور ٹراپیکانا جوس کے ڈبے خریدے۔

اب معاملہ روٹی کے حصول پر آکر پھنس گیا کہ ان سب کے ساتھ خمار گندم نہ ہوگا تو کیا فائدہ۔ بریڈ کی اتنی ورائٹی تھی کہ دیکھ کر ہمارا حال اس بچے کی مانند ہوگیا جو کھلونوں کی دکان میں جاکر ہوش کھو بیٹھتا ہے کہ کون سا خریدوں۔ آخرکار ایک خوفناک جنسی مکڑی سے مشابہہ نام کی بریڈ خریدنے پر اکتفا ہوا جس کا نام تھا ’ٹورٹیلا ریپ‘ (Tortilla wrap)۔ یہ Tortilla wraps ہمارے یہاں کی چپاتی کی بہن سمجھ لیں۔ یہ چپاتی بچھا کر اس پر ہمس کا لیپ کیا گیا۔ پھر اوپر مچھلی کے ٹکڑے رکھ کر سلاد پھیلایا گیا اور چپاتی کو لپیٹ کر کھا لیا گیا۔

شکاگو سے واپسی پر پھر بارسلونا قیام کیا لیکن اس بار ایک ساتھی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ یہ سارا قیام اسے اسپتال لے کر جانے اور پھر روز اس سے ملنے کے لیے آنے جانے میں صرف ہوا۔ ہم 2 ساتھی روز بس میں تقریباً 45 منٹ سفر کرکے صبح اس کے پاس چلے جاتے اور مغرب کے وقت واپس آجاتے۔ خدا کا شکر ہوا کہ 2 دن کے اندر اس کی حالت کچھ سنبھل گئی اور ہم واپس اس کو بطور مسافر اپنے ساتھ پاکستان لے آئے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Salazar Nov 13, 2022 12:37pm
Behtreen safrnama ek baar phir. Keep flying high sir
محمد شاہ زیب صدیقی Nov 14, 2022 09:50am
آپ کے سفرنامے پڑھ کر یوں گمان ہوتا ہے جیسے ہم خود وہاں موجود ہوں۔ شکاگو کی سیر کروانے کا بہت شکریہ