تین سال قبل مئی 2020 میں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گر کر تباہ ہونے والے پاکستان ایئر لائنز (پی آئی اے) کے مسافر بینک آف پنجاب (بی او پی) کے صدر ظفر مسعود نے پہلی بار حادثے سے متعلق کھل کر باتیں کی ہیں۔
ظفر سعود مذکورہ طیارے کے وہ دوسرے خوش نصیب مسافر تھے جو زندہ بچ گئے تھے، ان کے علاوہ ایک اور مسافر محمد زبیر بھی بچ گئے تھے جب کہ طیارے میں سوار باقی تمام 97 مسافر جاں بحق ہوگئے تھے۔
طیارہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب لینڈنگ کے دوران گر کر تباہ ہوا تھا اور طیارہ رہائشی عمارتوں پر گرا تھا، جس کی وجہ سے دیگر اموات بھی ہوئی تھیں۔
ظفر مسعود نے حال میں صحافی عمر چیمہ اور اعزاز سید کے پروگرام ’ٹاک شاک‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے پہلی بار واقعے سے متعلق آنکھوں دیکھا حال بتایا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ پروردگار نے انہیں نئی زندگی عطا کی۔
دوران گفتگو ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے حادثے میں زندہ بچ جانے میں ان کا کوئی کردار نہیں، سب معجزہ ہے اور ان پر خدا تعالیٰ کی خصوصی کرم نوازی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے برعکس دوسرے زندہ بچ جانے والے مسافر محمد زبیر نے طیارہ گرنے اور جسم جھلس جانے کے باوجود ہمت کرکے خود کو آگ زدہ طیارے سے باہر نکالا اور آبادی کے قریب آکر گرے، جہاں سے انہیں ریسکیو کیا گیا۔
ان کے مطابق محمد زبیر کے برعکس انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان پر خدا کا خصوصی کرم ہوا، ان کی سیٹ خود جہاز سے الگ ہوکر ایک عمارت پر جا گری، جہاں سے پھر وہ تین منزلہ عمارت سے نیچے گلی میں کھڑی ایک گاڑی کے بونٹ پر جا گرے۔
انہوں نے بتایا کہ طیارہ تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور ان کی سیٹ ایسی جگہ پر تھی کہ وہ کسی ایک حصے کے ساتھ نہ چپکی بلکہ خود سے الگ ہوکر عمارت پر جاگری۔
ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ اگر ان کی سیٹ الٹی گرتی تو وہ نہ بچ پاتے لیکن خدا تعالیٰ کے کرم سے ان کی سیٹ سیدھی عمارت کے چھت پر جا گری اور اس سے بڑھ کر خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ تین منزلہ عمارت سے بھی گاڑی کے بونٹ پر اس طرح گرے کہ ان کے سر پر چوٹیں نہیں لگیں۔
خوش قسمت شخص کا کہنا تھا کہ خدا پاک کا یہ بھی کرم تھا کہ اس گاڑی میں تین لوگ موجود تھے جو اسے اسٹارٹ کرکے وہاں سے نکلنے والے تھے اور جب وہ آکر گرے تو انہوں نے انہیں دوسرے افراد کی مدد سے ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو کرکے ہسپتال منتقل کیا۔
ظفر مسعود کے مطابق طیارے کے گرنے سے قبل طیارے میں رقت آمیز مناظر تھے اور ان کے سامنے کھڑی ایئر ہوسٹس اور دیگر عملہ زور زور سے رو رہے تھے، جب کہ تمام افراد تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے انہیں کسی چیز کا احساس نہیں تھا لیکن جب ان کے سامنے کاک پٹ کا دروازہ کھلا اور انہوں نے عمارتوں کو دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ جہاز گر رہا ہے۔
ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ اس لمحے چند سیکنڈز میں ان کے آگے اپنی پوری زندگی ریوائنڈ فلم کی طرح چلنے لگی اور انہوں نے چند ہی سیکنڈ میں اپنا بچپن، لڑکپن، جوانی اور کیریئر دیکھا اور خود کو سرینڈر کرلیا کہ اب کچھ نہیں ہو سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں کسی طرح کی کوئی شرمندگی یا پریشانی نہیں تھی کہ وہ مرنے والے ہیں لیکن انہوں نے ذہنی طور پر قبول کرلیا تھا کہ اب ان کی موت آنے والی ہے۔
ظفر مسعود کے مطابق طیارہ کو گرتا دیکھنے اور اپنی موت کو محسوس کرنے کے باوجود ان کے دل اور ذہن میں ایک امید تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح بچ جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ جب وہ زندہ بچ گئے تو والد نے انہیں بتایا کہ جب طیارہ حادثے کی خبر سنی تو والد نے بھی دل میں یہی سوچا کہ ان کا بیٹا کسی نہ کسی طرح بچ جائے گا۔
ظفر سعود کا کہنا تھا کہ انہیں متعدد افراد نے ریسکیو کرکے ایدھی ایمبولینس کے ذریعے سی ایم ایچ ہسپتال پہنچایا، جہاں لیڈی ڈاکٹر کے فون سے انہوں نے والد کو اطلاع دی کہ طیارہ گر کر تباہ ہو چکا ہے لیکن وہ خیریت سے ہیں اور اب وہ ہسپتال میں ہیں۔
طیارے پر سوار ہونے سے قبل کے لمحات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس دن کے علاوہ وہ کبھی بھی وقت پر ایئرپورٹ نہیں پہنچے تھے، ہمیشہ ایک سے سوا ایک گھنٹے تک تاخیر سے پہنچتے تھے لیکن اس دن وہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ چکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ حیران کن طور پر اس دن طیارہ بھی مقررہ وقت سے 10 منٹ پہلے پرواز کر چکا تھا اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس دن ہر کسی کو جلدی تھی۔
ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ بچ جانے کے بعد جب انہیں سی ایم ایچ ہسپتال سے دارالصحت ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا تو انہیں دیکھنے کے لیے لوگوں کی قطاریں لگ گئیں اور انہوں نے پہلی بار لوگوں کے دل اور آنکھ میں اپنے لیے محبت اور اپنائیت دیکھی اور مذکورہ لمحات نے ان کی زندگی بدل دی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعے سے قبل کی زندگی ان کی دوسری زندگی تھی اور حادثے میں بچ جانے کے بعد ملنے والی زندگی ان کی دوسری ہے اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ اب ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر کسی کے لیے آسانیاں پیدا کریں، ہر کسی کے کام آئے اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے مرنے کے وقت انہیں شرمندگی یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
تبصرے (0) بند ہیں