حکام کے مطابق افغانستان کی جانب سے خرلاچی اور بوڑکی کے مقام پر کرم بارڈر کی خلاف ورزی کرکے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 بچوں سمیت 7 افراد زخمی ہو گئے۔

پاراچنار ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر قیصر عباس بنگش نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ بچے شدید زخمی ہیں جبکہ افغانستان کی جانب سے مقامی آبادی پر شیلنگ سے مویشی ہلاک ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں تین سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جن کا علاج کیا جارہا ہے۔

وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی ساجد حسین طوری نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے شدید مذمت کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خرلاچی اور بوڑکی کے مقام پر کرم بارڈر کی مسلسل خلاف ورزی، جارحیت اور شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ کرم کے عوام اور پاک فوج اپنی سرزمین کی حفاظت اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا اچھی طرح جانتے ہیں۔

ساجد حسین طوری نے کہا کہ جارحیت اور جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور پاکستان ہمیشہ افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان برادر ملک ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمام حل طلب مسائل سفارتی ذرائع اور بات چیت کے ذریعے حل ہوں۔

وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے کہا کہ سرحد کے دونوں پار رہنے والے لوگوں کے درمیان زمینی تنازعات کو دو طرفہ جرگہ اور سفارتی ذرائع کے ذریعے حل کی جائیں تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو جس سے دونوں ممالک کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے زمین کے تنازع پر افغان حکومت سے پہلے ہی جرگے اور مذاکرات کیے ہیں اور مزید مذاکرات کی ضرورت ہے، سرحد پار کے لوگ خرلاچی اور بوڑکی کی پاکستانی زمینوں پر قبضے کی ناکام کوشش نہ کریں۔

دفتر خارجہ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔

دوسری جانب، طوری بنگش قبائل کے رہنما عنایت طوری نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پاک افغان بوڑکی خرلاچی بارڈر پر افغانستان کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات پر گذشتہ روز مقامی قبائل اور افغانستان کے طالبان کے مابین جھڑپیں شروع ہوئی تھی۔

جھڑپوں کے بعد قبائلی عمائدین نے پاک فوج کے حکام ، افغان حکام اور مشران کے تعاون سے جنگ بندی کی تھی مگر آج دوبارہ افغانستان کی جانب سے اسی جگہ پر 2 ایسکیویٹرز کے ساتھ کام شروع کردیا گیا، جس پر دوبارہ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جھڑپوں پر عوام میں شدید غصے اور بے چینی پائی جاتی ہے، عوام حکام سے مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ پاکستان کی سالمیت پر کھلے عام جارحیت ہے لہٰذا فورسز افغان حملہ آوروں کا جواب دینے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

عنایت طوری کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان کی جانب سے مقامی آبادی پر شدید گولہ باری جاری ہے جس سے معصوم جانوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

مقامی حضرات نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گاؤں کے بہت سارے لوگ پاراچنار شہر میں منتقل ہورہے ہیں۔

یاد رہے کہ 20 نومبر کو ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق آج ساتویں روز بھی پاک ۔ افغان چمن بارڈر غیر معینہ مدت کے لیے بند ہے۔

خیال رہے 13 نومبر کو افغان حدود سے نامعلوم مسلح شخص کی فائرنگ سے ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں