پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) اجلاس میں شرکت کرنے والے سی ای سی کے تمام اراکین اور پارٹی رہنماؤں کو پارٹی سے برطرف کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس برطرف سیکرٹری جنرل مختار خان یوسفزئی کی طرف سے بلایا گیا تھا۔

گزشتہ روز (26 نومبر کو) کوئٹہ میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے وائس چیئرمین عبدالرحیم زیارتوال اور دیگر مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمود خان اچکزائی نے اعلان کیا کہ پارٹی کے آئین کی خلاف سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا ایگزیکٹو کمیٹی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور خیبرپختونخوا کے معاملات جاری رکھنے کے لیے آرگنائزنگ کمیٹی کو نامزد کیا گیا ہے۔

محمود خان اچکزئی نے بتایا کہ انہوں نے سندھ اور جنوبی خیبرپختونخوا میں پارٹی کے صوبائی صدور اور ان کی کمیٹی اور نئی تشکیل شدہ آرگنائزنگ کمیٹی سے کہا ہے کہ کچلاک میں غیر آئینی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں کو برطرف کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینئر صدر عیسیٰ روشن، نائب صدر یوسف خان کاکڑ، صوبائی سیکریٹری اوررکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے، صوبائی سیکریٹری لیبر عبدالقادر آغا، آفس سیکریٹری فقیر خوشحال کاسی اور سندھ سے ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین افضل خان، وطن یار، سراج افغان اور شفیق ترین کی رکنیت معطل کردی گئی ہے اور ان کا 26 نومبر سے پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی کے رکن نصراللہ زیرے کے خلاف پارٹی آئین کے مطابق کارروائی کرے گی۔

خیال رہے کہ کچلاک میں پارٹی کے مرکزی اجلاس کے بعد رواں ہفتے کے اوائل میں مختار خان یوسف زئی نے کہا تھا کہ ادارے سے سینئر رہنماؤں کی بے دخلی غیر آئینی اور پارٹی کے اصولوں کے خلاف ہے۔

مختار خان یوسف زئی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اجلاس بلایا تھا جس میں زیادہ تر اراکین نے شرکت کی تھی۔

محمود خان اچکزئی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ مرکزی کمیٹی میں 163 ارکان شامل ہیں جن میں تقریباً 20 اراکین انتقال کرچکے ہیں جبکہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی بلانے کے لیے اراکین کی اکثریت ضروری ہے لیکن مختار خان اچکزئی کی جانب سے بلائے گئے ’غیر قانونی اجلاس‘ میں صرف 38 اراکین موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی سے برطرف ہونے والے سیکیریٹری جنرل اور دیگرکی جانب سے اعلان یا فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوری میں قومی کانگریس کے فیصلوں کی خلاف ورزی پر پارٹی نے اراکین کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کو پارٹی مسائل کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا لیکن مختار یوسف زئی نے مجھ سے براہ براست بات کرنے کے بجائے فیس بک کے ذریعے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس بلانے کا اعلان کیا جبکہ انہوں نے قومی ادارے کے خلاف پارٹی کے طلبہ ونگ کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ برطرف ہونے والے مختار خان یوسف زئی اجلاس نہیں بلاسکتے کیونکہ پارٹی آئین کے تحت ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برطرف ہونے والے اراکین پارٹی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں جنہیں ہم مسلسل برداشت کر رہے تھے لیکن اب معاملہ پارٹی کی بقا اور مفاد کا ہے جس کی خاطر ہم نے کارروائی کی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں اور پارٹی کے دیگر اراکین کم از کم 5 سال تک برطرف ہونے والے سی ای سی اراکین کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے، تاہم اگر برطرف رکن نے اپنے رویے کی وجہ سے معافی مانگی تو پارٹی اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرسکتی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے ملک کر درپیش معاشی اور سیاسی بحرانوں کا حل تلاش کرنے کے لیے گول میز کانفرنس بلانے کی تجویز دی، محمود خان نے کہا کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں، اداروں کے سربراہان، جرنلز اور ماہرین اقتصادیات کو ملک کے مفاد کی خاطر مل کر بیٹھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ نہ سمجھے بلکہ ہمسایہ اور ساتھی اسلامی ملک ہونے کے ناطے اس کے مسائل حل کرنے میں مدد کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں