پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا لانگ مارچ ویسے تو نہ لانگ رہا اور نہ ہی مارچ، مگر اس کے باوجود بھی دھوم مچا گیا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین سے کوئی اتفاق کرے یا اختلاف، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستانی سیاست میں ان کا ذکر سب کی مجبوری بن چکا ہے کیونکہ خان صاحب پاکستان میں سیاست کا محور بن چکے ہیں اور اب پاکستان میں سیاست یا تو اینٹی خان ہورہی ہے یا پرو عمران۔

اگر 26 نومبر کو ہونے والے لانگ مارچ کی بات کریں تو اس سے متعلق ایک انٹرویو میں مجھ سے پوچھا گیا کہ عمران خان کی سیاست کو آپ کیسے دیکھ رہی ہیں؟ تو میں نے جواب دیا کہ خان صاحب اپنی ٹرین مس کرچکے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ میرا یہ اندازہ قطعی غلط ثابت ہوا کیونکہ خان صاحب نے ٹرین مس نہیں کی بلکہ وہ تو ٹرین میں ایک بوگی کا اضافہ کرچکے ہیں۔

اکثریت کی رائے تھی کہ خان صاحب کو اب فیس سیونگ درکار ہے اور اسی کی تلاش میں انہوں نے پنڈی کا رخ کیا ہے لیکن تقریر کے آخر میں صوبائی اسمبلیوں کے خاتمے اور صوبائی حکومتوں سے باہر آنے کے اعلان نے تو جیسے بھونچال پیدا کردیا۔

حکومتی حلقے اور کئی ناقدین کی رائے تھی کہ خان صاحب پارلیمان میں واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر استعفوں کے اعلان کے بعد تو صورتحال کچھ اور ہی بن گئی۔

ویسے تو ماضی میں بھی کئی مرتبہ اسمبلیاں توڑنے سے متعلق خان صاحب بیان دیتے رہے ہیں اور ہر بار مخالف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ خیبرپختوانخوا کی حکومت تو ختم کی جاسکتی ہے مگر پنجاب میں پرویز الہی شاید یہ تسلیم نہ کریں۔

مگر اس بار ہم نے دیکھا کہ عمران خان کے اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد مونس الہی نے ٹوئٹ کے ذریعے یہ واضح کردیا کہ عمران خان نے جس دن کہا اسی دن پنجاب اسمبلی توڑ دیں گے اور پھر اگلے دن وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی ویڈیو بیان کے ذریعے واضح کردیا کہ یہ عمران خان کی امانت ہے، وہ جب بھی اسمبلی توڑنے کا کہیں گے تو ایک منٹ کی بھی دیر نہیں ہوگی۔

اگر حکومتی مؤقف اور ردِعمل کی بات کریں تو وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ اور وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب بار بار یہ بیانات دیتے رہے کہ اگر عمران خان قبل ازوقت انتخابات چاہتے ہیں تو جن صوبوں میں ان کی حکومت ہے وہ ختم کردیں۔ رانا صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ استعفوں کی صورت میں ہم ضمنی انتخابات نہیں کروائیں گے بلکہ عام انتخابات کی طرف ہی جائیں گے۔

چلیے ہم اسے محض سیاسی اور جذباتی بیانات تصور کرلیتے ہیں جو گاہے بگاہے دیے جاتے ہیں، لیکن اگر سنجیدہ بات کریں تو یہ سوال اب انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے کہ اگر عمران خان کے بیان کے مطابق تحریک انصاف اپنی صوبائی حکومتیں ختم کرلیتی ہے تو پھر حکومت کے پاس کیا آپشنز بچتے ہیں؟

اس مشکل صورتحال میں 4 ایسے آپشنز ہیں جن پر حکومت غور کرسکتی ہے۔ جیسے

  • ضمنی انتخابات کرا دیے جائیں
  • گورنر راج لگا دیا جائے
  • تحریک عدم اعتماد لائی جائے تاکہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں
  • گورنر پنجاب وزیرِ اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں

لیکن ایسی کسی بھی سیاسی چال کو ناکام بنانے کے لیے تحریک انصاف اور اتحادی صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دے دیں گے اور اسپیکر فوری ان استعفوں کو منظور کرلیں گے، جس کے بعد کے حالات یقینی طور پر حکومت کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔

جہاں تک گورنر راج کی افواہوں کا تعلق ہے تو اس میں دم نہیں کیونکہ گورنر راج اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب اسمبلیاں احسن طریقے سے نہ چلائی جا رہی ہوں۔ پھر اگر گورنر پنجاب وزیرِ اعلی پرویز الہیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتے ہیں تو نمبر گیم واضح طور پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے حق میں ہیں، یعنی یہاں بھی وفاقی حکومت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔

اب آخر میں بات کرتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے انعقاد سے متعلق۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں کُل 859 صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر عام انتخابات ہوتے ہیں۔ اب اگر عام انتخابات سے محض 6 ماہ پہلے ان میں سے نصف نشستوں سے استعفے دے دیے جائیں تو بھلا کس طرح ان تمام پر ضمنی انتخابات کروائے جاسکتے ہیں؟ اور پھر اس پوری پریکٹس کی وجہ سے ملکی خزانے پر جو بوجھ پڑے گا کیا وہ حکومت اٹھا سکتی ہے؟

سندھ میں 26، پنجاب میں 297، بلوچستان میں 2، خیبر پختونخوا میں 115 اور قومی اسمبلی کی 123 نشستیں ملا کر 563 نشستیں خالی ہوں گی، یعنی یہ معاملہ کسی بھی طور پر اتنا سادہ یا آسان ثابت نہیں ہوگا۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر کوئی ابھی بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ عمران خان نے بغیر سوچے سمجھے ایک جذباتی اعلان کیا ہے تو وہ یقیناً احمقوں کی جنت میں رہتا ہے کیونکہ میری اطلاعات کے مطابق یہ پلان کا حصہ تھا۔

خان صاحب کو کچھ حلقوں کی جانب سے پیغام بھیجا گیا تھا کہ عام انتخابات کے جلد انعقاد کے لیے حکومتِ وقت پر دباؤ بڑھانا ہوگا مگر اس کا وقت ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ اپنی پسند کے چیف کو لانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے بہترین حکمتِ عملی بناتے ہوئے پہلے یہ بیان دیا کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسے آرمی چیف بنایا جاتا ہے، بس یہ فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اور پھر لانگ مارچ کے لیے 26 نومبر کی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ مجھ سمیت اکثریت کی رائے یہ تھی کہ جب اتنا بڑا فیصلہ ہوچکا تو اس کے بعد اس لانگ مارچ کا کیا فائدہ؟ اب بھلا ان کے ہاتھ کیا آئے گا؟

مگر یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ خان صاحب اپنے پتے سینے سے لگا کر بیٹھے تھے۔ اب اگر حکومت اس بحران سے بچنا چاہتی ہے تو فوری طور پر رابطوں اور مذاکرات کا آغاز کرے۔ مل بیٹھ کر نئے انتخابات کی تاریخ کا تعین کیا جانا چاہے اور آئین میں درج طریقہ کار کو اپناتے ہوئے مل کر عبوری سیٹ اپ اور عبوری وزرائے اعلیٰ کا فیصلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو معاشی اعتبار سے جو مشکلات درپیش ہیں، ایسے حالات میں یہ ملک کسی بھی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا اور بہتر اور خوشحال پاکستان کے لیے سیاسی استحکام کی اشد ضروت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Nov 28, 2022 05:20pm
Laikin billaa sochay samjhay taiz bhagnay Wala jaldi thak bhi jata hai..... Aur shaid yehi Kuch ham aaindaa bhi dekhein gein...