اعظم نذیر تارڑ کا استعفیٰ مسترد، وزیر قانون کے طور پر کام جاری رکھنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2022
وفاقی وزرا نے اعظم نذیر تارڑ کو وزیراعظم کے فیصلے سے آگاہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزرا نے اعظم نذیر تارڑ کو وزیراعظم کے فیصلے سے آگاہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم شہباز شریف نے سینیٹر اعظم نذیر کا وزیرقانون کی حیثیت سے دیا گیا استعفیٰ نامنظور کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف نے پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا استعفیٰ نامنظور کر دیا‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام لے کر وفاقی وزرا کا وفد اسلام آباد میں سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی رہائش گاہ پہنچا اور وزیراعظم کے فیصلے سے آگاہ کیا‘۔

وزرا کے وفد میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیراطلاعات مریم اورنگزیب، اقتصادی امور کے وزیر ایاز صادق اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق شامل تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے مطابق وفاقی وزرا کے وفد نے اعظم نذیر تارڑ کو بتایا کہ وزیراعظم نے استعفیٰ نامنظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر قانون کے منصب پر ذمہ داریاں جاری رکھیں۔

بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی درخواست پر اعظم نذیر تارڑ بدھ کو وزیر قانون کی ذمہ داریاں پھر سے سنبھالیں گے۔

قبل ازیں اعظم نذیر تارڑ نے 24 اکتوبر کو وزیر قانون کے عہدے سے استعفی دیا تھا، جس کے بعد وفاقی وزیر سردار ایاز صادق کو وزیر قانون کی اضافی ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں اور اس حوالے سے نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوا تھا۔

خیال رہے کہ اعظم نذیر تارڑ نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس حوالے سے کہا تھا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر بطور وفاقی وزیر اپنی ذمہ داریاں جاری نہیں رکھ سکتا۔

اس استعفے کی خبروں کے دوران متعدد ٹی وی چینلز کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اعظم نذیر تارڑ نے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ’اسٹیبلشمنٹ مخالف نعروں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ لاہور میں منعقدہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے مہمان خصوصی تھے جہاں کچھ شرکا نے اپنی تقریر کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگائے تھے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہا تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ ساتھ کچھ ’جونیئر ججز‘ کے حق میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے بھی شدید دباؤ میں تھے جنہیں سپریم کورٹ میں ترقی دی جارہی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں