کل پاکستانی وقت کے مطابق 8 بجے گروپ اے کی ٹیموں نیدرلینڈز بمقابلہ قطر اور سنیگال بمقابلہ ایکواڈور کھیلا گیا اور پھر رات 12 بجے گروپ بی کے فیصلہ کُن میچوں میں ایران اور امریکا جبکہ ویلز اور انگلینڈ کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ آپ شاید حیران ہوں کہ جب اب تک ایک دن میں 4 گروپ میچ الگ الگ وقت میں کھیلے جارہے تھے تو اب اچانک سے ایک ہی وقت میں 2 میچ کھیلنے کی کیا وجہ ہے؟

تو آئیے اس کی وجہ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ ویسے آپ ہرگز یہ مت سمجھیے گا کہ قطر کے پاس اسٹیڈیمز کی کوئی کمی ہے بلکہ ایک ہی گروپ کے فیصلہ کُن میچ بیک وقت کھیلنے کی وجہ ’فیئر پلے‘ ہے۔ اس کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ شیڈول میں تبدیلی متوازن اور منصفانہ کھیل کے لیے کی گئی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ گروپ ٹیمیں راؤنڈ آف 16 میں پہنچنے کے لیے مطلوبہ نتائج سے لاعلم ہوں۔ یہ ٹیموں کو میچ فکسنگ کرنے سے بھی روکتا ہے کیونکہ اگر گروپ کے دوسرے میچ کے نتائج کا نہیں پتا ہوگا تو ٹیمیں گولز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کرپائیں گی۔

یوں بیک وقت 2 میچ دیکھنے میں دشواری تو ہو رہی ہے لیکن منصفانہ کھیل دیکھنے کے لیے یہ تکلیف قابلِ قبول ہے۔

اب واپس آتے ہیں کل کے میچوں کی طرف۔ چونکہ نئے شیڈول کے اطلاق کا پہلا روز تھا اس لیے میں سوچ رہی تھی کہ گروپ اے میں کس کا میچ دیکھوں۔ نیدرلینڈز بمقابلہ قطر میں کیونکہ قطر پہلے ہی عالمی کپ سے باہر ہو چکی ہے اور نیدرلینڈزکی اگلے مرحلے میں رسائی یقینی تھی اس لیے میں نے سنیگال بمقابلہ ایکواڈور کے فیصلہ کُن میچ کا انتخاب کیا۔

اور میرا یہ فیصلہ ٹھیک بھی ثابت ہوا۔ سنیگال اور ایکواڈور کا مقابلہ توقعات کے مطابق کافی دلچسپ رہا۔ دلچسپ موڑ تب آیا جب پہلے ہاف کے اختتامی لمحات میں سنیگال کو پینلٹی دے دی گئی۔ اس پینلٹی پر اسمعیلا سر نے گول اسکور کیا لیکن دوسرے ہاف کا کھیل تو اور بھی مزیدار ثابت ہوا۔ ایکواڈور نے 67ویں منٹ میں گول اسکور کرکے مقابلہ 1-1 سے برابر کردیا۔ اس موقع پر میدان میں موجود ایکواڈور کے شائقین اور کھلاڑیوں کا جوش دیدنی تھا لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر رہی نہیں کیونکہ اگلے 3 منٹ میں ہی سنیگال نے ایک بار پھر گول مار کر 1-2 کی برتری حاصل کرلی۔

اختتامی لمحات میں ایکواڈور مسلسل مقابلہ برابر کرنے کی جستجو میں نظر آئی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اگر یہ مقابلہ برابر ہوتا تب بھی ایکواڈور کے پاس موقع ہوتا کہ وہ گول کے فرق سے سنیگال سے آگے جاسکتا تھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ سنیگال کی 1-2 کی جیت کے ساتھ ہی ایکواڈور کا عالمی کپ کا سفر تمام ہوا۔

جبکہ دوسری طرف سنیگال نے 20 سال میں پہلی بار راؤنڈ آف 16 مرحلے میں رسائی حاصل کرلی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سنیگال کی عالمی کپ رسائی میں اہم کردار ادا کرنے والے سادیو مانے (جو انجری کے باعث ورلڈ کپ کا حصہ نہیں) اپنی ٹیم کی کارکردگی سے بے حد خوش ہوں گے۔

اور جس بات کی توقع تھی ویسا ہی ہوا، نیدرلینڈز جیسی مضبوط ٹیم کے سامنے قطر کی ایک نہیں چل پائی۔ البتہ گاکپو نے اس عالمی کپ کے تینوں میچوں میں نیدرلینڈز کی ٹیم کے لیے گول اسکور کیا۔ کل کے میچ میں دی جونگ کی کارکردگی بھی متاثرکُن رہی جبکہ انہوں نے نیدرلینڈز کے لیے گول بھی اسکور کیا۔ نیدرلینڈز کی 0-2 کی جیت کے ساتھ ہی قطر جو پہلے ہی عالمی کپ سے باہر تھا، اس نے اپنے آخری میچ میں بھی شکست کا سامنا کیا۔

جبکہ اس میچ میں شائقین فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر فلسطینی جھنڈے بھی لہراتے نظر آئے۔

12 بجے ہونے والے دونوں ہی میچ اہم تھے اس لیے میں نے یہ دونوں ہی میچ مختلف ڈیوائسز پر بیک وقت دیکھے۔

ایران بمقابلہ امریکا کانٹے کا مقابلہ ہونے والا تھا جس کی ایک وجہ ان کے سیاسی تنازعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی شائقین اس میچ سے قبل اور دوران کافی پُرجوش نظر آئے۔

میچ کافی دلچسپ رہا لیکن ایران کا کھیل توقعات کے مطابق نہیں تھا۔ ویلز کے خلاف میچ جیتنے کے بعد لگ رہا تھا کہ ایرانی ٹیم کا مورال جیسا ہے وہ اگر امریکا کو شکست نہیں بھی دے سکی تو کم از کم مقابلہ برابر کر ہی دے گی لیکن کل ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پہلے ہاف میں امریکا حاوی تھا اور تقریباً پورا ٹائم ہی میچ ایران کے گول باکس میں کھیلا گیا جس کا نتیجہ 38ویں منٹ میں پہلے گول کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن اس گول کے باوجود ایران کے دفاع کی تعریف بنتی ہے کیونکہ اگر یہاں اچھا کھیل پیش نہیں کیا جاتا تو گول کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی تھی۔

اس اہم میچ کے لیے پہلے میچ میں انجری کا شکار ہونے والے ایرانی گول کیپر کی بھی واپسی ہوئی تاکہ ایران اپنے اس فیصلہ کُن میچ میں بھرپور کھیل پیش کرسکے۔ پہلے ہاف میں امریکی گول کے باوجود یہ امید اب بھی تھی کہ ابھی کھیل باقی ہے ایران شاید واپسی کرلے۔ مگر ایرانی کھلاڑی تریمی کے اچھے کھیل کے باوجود کل کچھ بھی ایران کے حق میں نہیں گیا۔ متعدد مواقوں پر لگ رہا تھا کہ بس اب تو گول ہو ہی گیا لیکن ایران سے ہر بار وہ شاٹ چوک جاتا تھا۔

امریکی کھلاڑی ویسٹن میکینی کا کھیل مجھے امریکا کے تینوں میچوں میں پسند آیا۔ مخالف ٹیم کے دفاع کو توڑتے ہوئے بال کو گول باکس میں لے جانے کی ان کی حکمتِ عملی بہترین رہی۔ جبکہ ویلز کے خلاف پہلے میچ میں گول اسکور کرنے والے ٹم ویاہ بھی اس میچ میں سرگرم نظر آئے جبکہ انہوں نے دوسرے ہاف میں آف سائڈ گول بھی اسکور کیا۔

یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ ایران اور امریکا جیسے حریف ٹکرائیں اور کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو۔ میچ میں اہم موڑ تب آیا جب ایران نے اختتامی لمحات میں ہینڈ بال پر پینلٹی دینے کا مطالبہ کیا۔ ایرانی کھلاڑیوں کی جانب سے کافی شور کیا گیا۔ چونکہ جس ایرانی کھلاڑی نے شاٹ لیا وہ خود آف سائڈ تھے اس لیے ریفری نے وی اے آر نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ بینج پر موجود ایرانی کپتان (جن کا تبادلہ ہوچکا تھا) کی ریفری سے بحث پر انہیں یلو کارڈ بھی دکھا دیا گیا۔

خیر اس میچ کا نتیجہ 1-2 سے امریکا کے حق میں رہا جبکہ ایران کا عالمی کپ میں اگلا مرحلہ کھیلنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔

دوسری جانب برطانیہ کے دو اہم ممالک، انگلینڈ اور ویلز کی ٹیمیں مدِمقابل تھیں۔ اس میچ میں کچھ بھی توقعات کے برخلاف نہیں ہوا۔ انگلینڈ مضبوط تھی اس لیے ان کی جیت کا اندازہ پہلے ہی تھا۔ پہلے ہاف میں مقابلہ 0-0 رہا جبکہ دوسرے ہاف کے ابتدائی لمحات میں ہی انگلینڈ نے 2 بہترین گول اسکور کیے، جن میں سے ریشفورڈ کا فری کک پر مارے جانے والا گول نمایاں رہا۔ یہ دونوں گول انگلینڈ نے ایک منٹ کے فرق سے اسکور کیے۔

جبکہ ریشفورڈ نے اپنا دوسرا اور انگلینڈ کے لیے اس میچ میں تیسرا گول کھیل کے 68ویں منٹ میں اسکور کیا۔ ریشفورڈ کو عموماً پہلے ہاف کے بعد متبادل کے طور پر میدان میں بھیجا جاتا ہے لیکن اس بار وہ شروع سے ہی میدان میں موجود تھے۔ چونکہ 25 سالہ مانچسٹر یونائٹڈ کے ریشفورڈ کا کھیل مجھے پسند ہے اس لیے میں ان کی ہیٹ ٹرک کی منتظر تھی لیکن کوچ نے انہیں باہر بلا لیا۔ جب کھلاڑی تھکنے لگ جائیں تو انہیں باہر بلانا ہی پڑتا ہے اور ریشفورڈ کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا۔

اختتام میں تو ویلز کی ٹیم دفاعی کھیل کھیل رہی تھی۔ لگ رہا تھا ان کی حکمتِ عملی گول مارنا نہیں بلکہ روکنا ہے۔ سچ کہوں تو جیسا کھیل ویلز نے کھیلا اس کے بعد ان کی شکست کوئی حیران کُن بات نہیں تھی۔

اگرچہ گیرتھ بیل کی ویلز جس نے 64 سال بعد عالمی کپ میں شرکت کی تھی، ان کا عالمی کپ سفر گروپ مرحلے میں شکست کے بعد کل رات تمام ہوگیا۔ جبکہ انگلینڈ نے اگلے مرحلے میں رسائی حاصل کرلی ہے اور 56 سال سے عالمی کپ جیتنے کی خواہش لیے وہ ایک قدم مزید آگے بڑھ چکی ہے۔

اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ ان 2 گروپ کے میچوں کے اختتام کے ساتھ ہی ہفتے سے شروع ہونے والے راؤنڈ آف 16 کے ابتدائی میچ بھی واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ گروپ اے کی ٹاپ ٹیم نیدرلینڈز گروپ بی کی رنر اپ ٹیم یعنی امریکا سے ٹکرائے گی جبکہ گروپ بی کی ٹاپ ٹیم انگلینڈ گروپ اے کی رنر اپ سنیگال سے مقابلہ کرے گی۔ آنے والے میچ کافی دلچسپ ہونے والے ہیں اس لیے ان سنسنی خیز لمحات کا بے چینی سے انتظار رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں