ضروری اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لینے والے پیمانے (ایس پی آئی) کے تحت نومبر میں مجموعی مہنگائی سالانہ بنیاد پر بڑھ کر 23.8 فیصد ہوگئی جبکہ گزشتہ ماہ کے 26.6 فیصد کے مقابلے میں معمولی کم ہوئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی بنیادی وجہ کی سالانہ بنیاد پر غذائی اجناس اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔

اسمٰعیل سیکیورٹیز کے مطابق ماہانہ بنیاد پر نومبر میں سی پی آئی کی شرح میں 0.8 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گزشتہ ماہ 4.74 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا، ماہانہ مہنگائی میں کمی سیلاب سے پیدا ہونے والی مہنگائی میں کمی سے ہوئی ہے۔

نومبر میں ماہانہ بنیاد پر 0.1 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ ماہ 4.6 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

رپورٹ کے مطابق غذائی اجناس کی قیمتوں میں اکتوبر میں 20 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ نومبر میں 5 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے ایک مہینے کے لیے رواں ہفتے جاری کیے گئے اعداد و شمار میں کہا گیا تھا کہ مقامی سطح پر اشیا کی معمول کے مطابق فراہمی، نومبر میں بجلی کی قیمتوں میں ردو بدل نہ ہونے اور متوازن ایکسچینج ریٹ کے باعث دباؤ میں معمولی کمی کا امکان ہے۔

وزارت نے کہا تھا کہ نومبر میں سی پی آئی کے تحت مہنگائی کی شرح 23 سے 25 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز نے نشان دہی کی ہے کہ مجموعی مہنگائی میں کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے لیکن سالانہ مہنگائی کی شرح بدستور 16.2 فیصد پر جمی ہوئی ہے اور ماہانہ بنیاد پر 1.3 فیصد اضافہ ہوا ہے اور مسلسل 6 ماہ میں یہ شرح ایک فیصد سے زیادہ رہی ہے۔

ریسرچ ٹیم کی جانب سے کہا گیا کہ مجموعی مہنگائی اسٹیٹ بینک کی توجہ کی وجہ سے جاری رہے گی اور پالیسی سازی میں اہمیت اختیار کرے گی۔

انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ رواں مالی سال کے لیے مہنگائی کی شرح 23.5 فیصد ہوسکتی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند ماہ سے دہائیوں بعد مہنگائی کے عروج پر ہے لیکن سی پی آئی کے مطابق ستمبر میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 23.2 فیصد ہوگئی جبکہ اگست میں 49 سال کی بلند ترین سطح 27.2 فیصد ہوگئی تھی۔

مہنگائی کی شرح میں کمی کا یہ رجحان اگلے ماہ ہی تبدیل ہوگیا اور اکتوبر میں 26.6 فیصد پر آگئی اور اس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کو گزشتہ ہفتے زری پالیسی میں اضافہ کرنا پڑا جسے 100 بیسس پوائنٹs کے ساتھ 16 فیصد کرکے 24 سال کی بلند سطح پر پہنچا دیا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ شرح سود میں اضافے کا مقصد مہنگائی کی شرح کو دیرپا ہونے سے روکنا تھا۔

اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافے کے بعد بیان میں کہا تھا کہ ملک میں اجرت میں کمی کا سامنا ہے جس سے مہنگائی میں طوالت کا خدشہ ہے اور مہنگائی کا دباؤ بدتر ہوتا گیا اور توقع سے زیادہ ہوگیا ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری سی پی آئی کے اعداد وشمار کے مطابق اضافے کے تقریباً تمام ذیلی اشاریے نومبر میں دہرے ہندسے میں رجسٹر کیے گئے، جس میں ٹرانسپورٹ 44.2 فیصد کے ساتھ سرفہرست، دوسرے نمبر پر غذائی اشیا 31.2 فیصد ہے تاہم دونوں شعبوں میں گزشتہ ماہ معمولی کمی کے ساتھ بالترتیب 53.2 فیصد اور 36.4 فیصد پر آئی ہے۔

اعداد و شمار میں دکھایا گیا ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں مہنگائی میں بالترتیب 21.6 فیصد اور 27.2 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ ماہ کی 24.6 فیصد اور 29.5 فیصد سے کم ہے۔

دیہی اور شہری علاقوں میں غذائی اشیا کی مہنگائی بالترتیب 28.8 فیصد اور 33.7 فیصد پر رہی ہے۔

شہری علاقوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ برس نومبر کے مقابلے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جن میں درج ذیل اشیا شامل ہیں:

  • پیاز (284.87 فیصد)
  • چنا (63.49 فیصد)
  • چائے (62.18 فیصد)
  • دال چنا (56.19 فیصد)
  • بیسن (56.1 فیصد)
  • مکھن (53.05 فیصد)
  • دال ماش (46.29 فیصد)
  • سرسوں کا تیل (44.69 فیصد)
  • گندم (43.4 فیصد)
  • کوکنگ آئل (41.88 فیصد)
  • ڈیزرٹ کی تیاری (40.1 فیصد)
  • چاول (39.75 فیصد)
  • دال مسور (38.73 فیصد)

تبصرے (0) بند ہیں