عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام کے نویں جائزے کے حوالے سے غیریقینی کی صورتحال اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے سبب پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہفتے کا آغاز مندی سے ہوا۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بینچ مارک ’کے ایس ای-100 انڈیکس‘ 537.43 پوائنٹس یا 1.28 فیصد کمی کے بعد 41 ہزار 612 پر بند ہوا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 25 نومبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں تاریخی کم سطح 7 ارب 50 کروڑ ڈالر تھے، جس سے محض ایک مہینے کی درآمدات کی ادائیگی ہوسکتی ہے۔

اس کے بعد پاکستان نے 2 دسمبر کو ایک ارب ڈالر کے عالمی بانڈز کی ادائیگی مدت سے 3 روز قبل ہی کر دی تھی، اور ایشین انفرااسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک کی جانب سے 50 کروڑ ڈالر بھی موصول ہوئے تھے۔

سعودی عرب نے بھی پاکستان کے غیر ملکی ذخائر میں جمع 3 ارب ڈالر کی مدت میں بھی توسیع کر دی تھی۔

انٹرمارکیٹ سیکیورٹیز میں تحقیق کے سربراہ رضا جعفری نے بتایا کہ زرمبادلہ کےحوالے سے غیر یقینی کی صورتحال ہے، اور خاص طور پر آئی ایم ایف پروگرام کا نواں جائزہ التوا کا شکار ہے ۔

پاکستان نے آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کا پروگرام 2019 میں شروع کیا تھا ، جس کا نواں جائزہ زیر التوا ہے، آئی ایم ایف حکام اور حکومت کے درمیان ایک ارب 18 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز کے سربراہ برائے ریسرچ فہد رؤف نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا جائزہ تاخیر کا شکار ہے، جس کے سب سرمایہ کاروں میں بے چینی ہے، وزیرخزانہ کی جانب سے نجی ٹی وی پر تبصرے نے بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے 2 دسمبر کو نجی ٹی وی پر تبصرہ کیا گیا، جس سے یہ اشارہ ملا کہ مذاکرات میں تعطل ہے۔

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کے 7 ارب ڈالر توسیع فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے نویں جائزے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے یا نہ کرے اور انہیں ملکی مفاد کو مقدم رکھنا ہے’۔

18 نومبر کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان متعدد اہم کارکردگی کے کرائی ٹیریا میں پیچھے تھا جبکہ حکام نے مالیاتی ادارے سے کچھ چھوٹ کا بھی مطالبہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

ملک معاشی بحران کا شکار ہے، پاکستان میں دہائیوں کی بُلند مہنگائی اور خطرناک حد تک کم غیر ملکی زرمبادلہ ہیں، پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا جس کی وجہ سے 1700 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ زراعت اور انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان ہوا تھا، جس کا تخمینہ تقریبا 30 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں