’پاکستان 2075 تک دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہوسکتا ہے‘

07 دسمبر 2022
ان کا کہنا تھا کہ اہم خطرات موسمیاتی تباہی اور قوم پرست آبادی ہو سکتے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
ان کا کہنا تھا کہ اہم خطرات موسمیاتی تباہی اور قوم پرست آبادی ہو سکتے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

گولڈ مین سیچس کے تحقیقی مقالے میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ اگر پاکستان مناسب منصوبہ بندی کرتا ہے تو 2075 تک دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن جائے گا۔

ماہرین معیشت کیون ڈالے اور ٹیڈس گیڈمناس نے ’دی پاتھ ٹو 2075‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ 2075 تک ممکنہ طور پر دنیا کی 5 بڑی معیشتیں چین، بھارت، امریکا، انڈونیشیا ور نائجیریا ہوں گی۔

گولڈمین سیچس تقریباً 2 دہائیوں سے ممالک کے طویل المدت میں شرح نمو کے حوالے سے تجزیہ کر رہا ہے، اس نے ابتدائی طور پر برکس ممالک (بی آر آئی سی) کی معیشتوں کے حوالے سے رپورٹ شائع کرنا شروع کیں، تاہم گزشتہ 10 برسوں سے انہوں نے تخمینوں کے لیے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے 70 ممالک تک بڑھایا ہے۔

برکس ممالک پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم ہے، جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

حالیہ تحقیقی مقالے میں 104 ممالک اور سال 2075 تک کے حوالے سے تخمینے لگائے گئے ہیں۔

گولڈمین سیچس کے مطابق پاکستان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی آبادی میں اضافے کی بنیاد پر کی گئی ہے، جو مصر اور نائجیریا کے ساتھ اگلے 50 برسوں میں دنیا کے بڑی معیشتوں میں شامل ہوں گے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ پاکستان کی حقیقی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 1270 کھرب ڈالر اور فی کس آمدنی 27 ہزار 100 ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

لیکن چین، بھارت اور امریکا کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت تقریباً ایک تہائی سے بھی کم ہوگی، بھارت کی حقیقی جی ڈی پی 2075 تک 5250 کھرب ڈالر اور فی کس آمدنی 31 ہزار 300 ڈالر ہونے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔

ماہرین معیشت نے رپورٹ میں ان تخمینوں میں اہم خطرات موسمیاتی تباہی اور قوم پرست آبادی کو قرار دیا ہے۔

پائیدار ترقی کو عالمی سطح پر مشترکہ ردعمل کے ذریعے ہی یقینی بن سکتا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ان تخمینوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے، خاص طور پر پاکستان کے لیے جو موسمیاتی تبدیلی سے پر زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ متعدد ملکوں میں قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے کی صورت میں تحفظ بڑھ سکتا ہے جس کے نتیجے میں عالمگیریت پیچھے جاسکتی ہے، جس سے کئی ملکوں میں آمدنی کے حوالے سے عدم مساوات بڑھ سکتی ہے۔

دیگر اہم تخمینے

عالمی شرح نمو میں کمی کا رجحان

تحقیقی مقالے میں مزید بتایا گیا کہ عالمی شرح نمو گزشتہ دس برسوں کے اوسطً 3.6 فیصد سالانہ اضافے کے مقابلے میں کم ہو کر تقریبا 3.2 فیصد پر آچکی ہے۔

رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی کہ 2024 سے 2029 کے درمیان عالمی شرح نمو میں اوسطاً 2.8 فیصد سالانہ اضافہ ہوگا اور اس میں بتدریج کمی جاری رہ سکتی ہے۔

ابھرتی معیشتوں کی ترقی

عالمی شرح نمو میں کمی ہوگی تاہم ابھرتی ہوئی معیشیتیں تیز رفتاری سے ترقی کریں گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگلے 30 برسوں میں عالمی جی ڈی پی کا رخ مزید ایشیا کی طرف منتقل ہو جائے گا، ڈالر میں پیمائش کی جائے تو چین، امریکا، بھارت، انڈونیشیا اور جرمنی کی معیشتیں سرفہرست ہوں گی، نائجریا، پاکستان اور مصر بھی بڑی معیشتوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔

عالمی آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی

رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر آبادی کی رفتار میں اضافے کی شرح میں کمی کی وجہ سے عالمی شرح نمو میں بھی تنزلی کا رجحان رہے گا، جس حوالے سے اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق آبادی میں اضافے کی شرح 2075 تک صفر تک پہنچ سکتی ہے۔

تحقیقی مقالے میں بتایا گیا کہ یہ ’اچھا مسئلہ‘ ہے، یہ ماحول کو ہونے والی تباہی کم کرے گی لیکن اس سے معاشی مسائل جنم لیں گے کیونکہ بڑی عمر کی آبادی کی وجہ سے علاج و معالجے کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔

امریکا مضبوط معاشی کارکردگی کو دہرا نہیں سکے گا

رپورٹ کے مطابق امریکا گزشتہ دہائی کی مضبوط معاشی کارکردگی کو دہرا نہیں سکے گا، اس کی معاشی شرح نمو بڑے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہوگی۔

تحقیقی مقالے میں یہ بھی توقع ظاہر کی گئی ہے کہ امریکی ڈالر اگلے 10 برسوں میں اپنی مضبوطی کو کھوئے گا۔

کم عالمی لیکن زیادہ مقامی عدم مساوات

ابھرتی ہوئی معیشتوں کی وجہ سے ممالک کے درمیان آمدنی میں عدم مساوات کم ہوگی لیکن ممالک کے اندر اس میں اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سے عالمگیریت کے مستقبل کے حوالے سے چیلنجز ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں