دوسرے سیمی فائنل میں مراکش کا فرانس کے ہاتھوں شکست کے بعد عالمی کپ کی ٹرافی اٹھانے کا خواب تو ٹوٹ گیا لیکن اس ورلڈ کپ میں مراکش کی فٹبال ٹیم نے جو سفر طے کیا ہے، اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

کوچ ولید ریگراگی کی مراکش ٹیم بہت طویل اور دلچسپ سفر طے کرکے ایونٹ کے سیمی فائنل تک پہنچی جہاں اس کا مقابلہ دفاعی چیمپئن فرانس سے ہونا طے پایا۔ پوری دنیا کو ہی اس میچ کا انتظار تھا کیونکہ اس پورے ٹورنامنٹ میں فرانس اپنا لاجواب اٹیکنگ کھیل پیش کرتی آرہی تھی جبکہ مراکش وہ ٹیم تھی جس نے اس پورے ٹورنامنٹ میں اپنی حریف ٹیم سے ایک بھی گول نہیں کھایا تھا۔ مقابلہ دلچسپ ہونے والا تھا اس لیے غیر جانبدار شائقین اس سیمی فائنل کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔

میچ شروع ہونے سے قبل میدان پر نظر ڈالی تو ہر جانب سرخ لباس میں ملبوس افراد نظر آئے۔ کہا جارہا تھا کہ مراکش کی حکومت نے سیمی فائنل کے لیے مراکش کی ایئرلائن کی خصوصی پروازوں کا انتظام کیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ شائقین میدان میں قومی ٹیم کا جذبہ بڑھانے کے لیے وہاں موجود ہوں جبکہ انہوں نے 13 ہزار ٹکٹس بھی شائقین میں تقسیم کیے تھے۔ ان کا یہ حربہ کامیاب رہا اور ایسا لگ رہا تھا البیت اسٹیڈیم دوحہ میں نہیں بلکہ کاسابلنکا میں واقع ہے۔ بتایا جا رہا تھا کہ کل میدان میں 50 ہزار سے زائد مراکشی تماشائی موجود تھے جبکہ اس اسٹیڈیم میں مجموعی طور پر 60 سے 70 ہزار افراد کی گنجائش موجود ہے۔

اب آتے ہیں میچ کی جانب۔ ابھی کھیل شروع ہی ہوا تھا اور دونوں ٹیموں کی حکمتِ عملی سمجھنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کہ میچ کے صرف پانچویں منٹ میں فرانس نے پہلا گول کردیا۔ یہ گول تھیو ہرنینڈس کی جانب سے کیا گیا جبکہ یہ گول 1958ء کے بعد کسی بھی سیمی فائنل میں سب سے جلدی اسکور ہونے والا گول تھا۔ فرانس کا موو بہت اچھا تھا جس نے مراکش کے دفاع کو پریشان کردیا۔

ہرنینڈس کی تعریف یہاں خصوصی طور پر کرنا چاہوں گی۔ فرانس کے لیے کافی عرصہ کھیلنے کے باوجود ہرنینڈس کا بین الاقوامی ڈیبیو سال 2021ء میں ممکن ہوسکا تھا۔ جب انہیں موقع ملا تو انہوں نے نیشنز لیگ میں بیلجیئم کے ساتھ ہونے والے سیمی فائنل میں گول اسکور کیا تھا جبکہ انہوں نے اپنا دوسرا گول کل رات عالمی کپ کے سیمی فائنل میں اسکور کیا۔ پہلے ہی میچ میں انجری کا شکار ہونے والے ہرنینڈس نے ہمت نہیں ہاری اور ہر میچ میں کھیلتے رہے۔ انہوں نے پورے ٹورنامنٹ میں نہ صرف بہترین اسسٹ کیے بلکہ اپنا پہلا عالمی کپ گول بھی اسکور کیا۔

گول ہونے کے بعد مراکش کی ٹیم گول اسکور کرنے لیے بے تاب نظر آئی۔ حتیٰ کہ میچ کے ابتدائی 30 منٹ میں کوچ ولید ریگراگی نے مراکش کی ٹیم میں پہلی تبدیلی بھی کردی۔ میدان سے جانے کے لیے امان اللہ نے گرنے تک کا رسک لے لیا تاکہ میچ روکا جاسکے اور متبادل کھلاڑی بھیجا جائے۔ اس عالمی کپ میں تبادلے کے اصول کافی سخت رہے۔ جو کھلاڑی میدان سے باہر جانے میں دیر کررہا تھا ریفری اسے یلو کارڈ دکھا دیتا ہے اور اضافی وقت بھی زیادہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ برتری کے باوجود کھلاڑی وقت ضائع کرنے کا کوئی حربہ نہیں اپنا سکے۔ ہم نے دیکھا کے جیروڈ کو بھی میچ کے دوران سب سے نزدیک جو ٹچ لائن تھی اسی سے باہر بھیجا گیا تاکہ کھیل زیادہ دیر نہ رک پائے۔

متواتر کوششوں کے باوجود مراکش کی ٹیم گول اسکور نہیں کرپا رہی تھی۔ چند مواقع تو اتنے آسان تھے کہ ان کا ضائع ہونا مجھے حیرت میں مبتلا کررہا تھا۔ یہاں یہ کہنا حق بجانب ہے کہ فرانس کی دفاعی حدود بہت مستحکم تھی۔ گول کیپر تک بات پہنچنے سے پہلے ہی کونڈے، واران اور کاناٹے اسے کامیابی سے روک رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مراکش کی جانب سے اچھی پاسنگ ہونے کے باوجود اچھا فینش نہیں ہو پا رہا تھا۔

یہاں جاوید الیامیق کی بائی سائیکل کِک کا تذکرہ ضرور کروں گی جس کے نتیجے میں اگر گول ہوجاتا تو یہ عالمی کپ کا بہترین گول ہوتا کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں مارا جاتا جب مراکش کو برابری کی اشد ضرورت تھی۔ مگر فرانسیسی گول کیپر لوریس نے کامیابی سے اسے روک لیا۔

ابھی بھی وقت تھا اور لگ رہا تھا کہ کھیل برابر ہوسکتا ہے کیونکہ مراکش کی ٹیم کافی متحرک نظر آرہی تھی۔ اس موقع پر فرانس کی ٹیم میں ایک تبدیلی کی گئی جو شاندار ثابت ہوئی کیونکہ متبادل کھلاڑی موآنی نے میدان میں آنے کے 44 سیکنڈز میں ہی گول اسکور کردیا۔ یہ کیلن مباپے اور گریزمین کی شاندار پاسنگ سے ہی ممکن ہو پایا۔ یہ گول عالمی کپ میں کسی متبادل کھلاڑی کی جانب سے اسکور ہونے والا دوسرا تیز ترین گول تھا۔

مراکش کا دفاع مجھے کافی پسند ہے لیکن کل فرانس کی رفتار نے ان کے بہترین دفاع کو بھی مات دے دی۔

اختتام کی سیٹی بجی تو مراکش کی ٹیم اور شائقین کے چہروں پر اداسی چھا گئی۔ لیکن ہار کے باوجود انہوں نے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر شکر ادا کیا جس نے ان کی ٹیم کے لیے دل میں عزت مزید بڑھا دی۔

اس میچ کے حوالے سے ایک اور دلچسپ عنصر یہ بھی تھا کہ مجھے اشرف حکیمی اور کیلن مباپے کو ایک ساتھ بطور حریف کھیلتے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ دونوں کھلاڑی کلب پیرس سینٹ جرمین کے لیے کھیلتے ہیں اور ان کی دوستی بہت اچھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میچ کے اختتام پر مباپے حکیمی کو تسلی دیتے نظر آئے جبکہ ان دونوں نے شرٹس کا بھی تبادلہ کیا۔

اس اہم ترین سیمی فائنل میں فرانسیسی صدر ایمانویئل میکرون بھی البیت اسٹیڈیم میں موجود تھے۔

مراکش نے اس عالمی کپ میں ایک داستان لکھ دی ہے۔ ایسی داستان جسے مدتوں تک لوگ یاد رکھیں گے۔ مراکش کی ٹیم اب ہفتے کے روز ٹورنامنٹ میں تیسری پوزیشن کے لیے کروشیا کے مدِمقابل آئے گی۔

فرانس اس میچ میں 0-2 سے فتح حاصل کرکے مسلسل دوسری بار جبکہ مجموعی طور پر چوتھی بار عالمی کپ کے فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس کا مقابلہ ارجنٹینا سے ہوگا جسے وہ 2018ء میں عالمی کپ کے پری کوارٹر فائنل میں شکست دے چکا ہے۔ ارجنٹینا کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ یہ میچ جیت کر سود سمیت بدلہ لے سکے۔

فرانسیسی ٹیم جس میں پوگبا، کانٹے اور بینزیما جیسے اہم کھلاڑی موجود نہیں ہیں اس کے باوجود ان کا فائنل میں پہنچنا ثابت کرتا ہے کہ اس ٹیم کو فیوریٹ تسلیم نہ کرنا کتنی بڑی غلطی تھی۔

لگاتار دوسری بار عالمی کپ کی ٹرافی جیتنے کے لیے فرانس کی راہ میں اب صرف دنیائے فٹبال کے عظیم کھلاڑی میسی اور ان کی ٹیم حائل ہے۔ کیا فرانس لگاتار دوسری بار عالمی کپ جیتنے کا خواب پورا کر پائے گی یا پھر میسی اپنے آخری بین الاقوامی میچ میں فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھائیں گے؟ نتیجہ جاننے کے لیے اتوار کے دن کا بے چینی سے انتظار رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں