توشہ خانہ کیس: عمران خان فوجداری کارروائی کیلئے 9 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2022
الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کے لیے مقامی عدالت کو معاملہ بھیج دیا تھا — فائل/فوٹو: ڈان
الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کے لیے مقامی عدالت کو معاملہ بھیج دیا تھا — فائل/فوٹو: ڈان

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ ریفرنس پر کارروائی کے لیے دائر درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں 9 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

جج نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی درخواست قابل سماعت قرار دی اور عمران خان کو پیشی کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔

عدالت نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو 9 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

قبل ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے توشہ خانہ ریفرنس کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی درخواست پر فیصلہ 12 دسمبر کو محفوظ کرلیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے عدالت میں اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔

وکیل نے مؤقف اپنایا تھا کہ 2018 میں قانون آیا تھا کہ 20 فیصد رقم توشہ خانہ میں جمع کروا کے تحفہ حاصل کیا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی کی حکومت نے رقم 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کردی تھی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ گھڑی کی قیمت 8 کروڑ 50 لاکھ روپے لگائی گئی، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان یہ بتانے میں ناکام رہے کہ گھڑی آگے کتنے کی بیچی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا تھا کہ کیس گھڑی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ عمران خان کی جانب سے جمع کروائے گئے اثاثہ جات کے حوالے سے ہے۔

الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد فوجداری کارروائی کے لیے معاملہ مقامی عدالت کو بھی دیا تھا۔

توشہ خانہ ریفرنس

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی تھی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کردیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں