گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے متعلق دی گئی رولنگ کو ’غیر آئینی‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار دے دیا۔

سماجی رابطے کے ویب سائٹ ٹوئٹر پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے تین صفحات پر مشتمل خط جاری کیا، جس میں گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کی جانب سے دی جانے والی رولنگ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کا مذکورہ حوالوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بلیغ الرحمٰن نے سبطین خان کی رولنگ میں اٹھائے گئے دو اہم نکات پر ردعمل دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ گورنر اُس وقت تک اسمبلی کا نیا اجلاس طلب نہیں کر سکتا جب تک موجودہ اجلاس ختم نہیں کیا جاتا اور دوسرا یہ کہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کم از کم 10 دن کی مدت لازمی درکار تھی۔

اسپیکر کی جانب سے اٹھائے جانے والے پہلے نکتے پر ردعمل دیتے ہوئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ انہوں نے اپنے 19 دسمبر کے حکم میں کہا تھا کہ اگر جاری اجلاس کو آپ ( اسپیکر) نے آج شام 4 بجے سے پہلے کسی بھی وقت ملتوی کر دیا، تو پھر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے شام 4 بجے نیا اجلاس طلب کیے جانے کی ضرورت ہوگی۔

گورنر پنجاب نے خط میں لکھا کہ اگر اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی جاری ہو تو آئین کا آرٹیکل 130(7) اسے نافذ ہونے سے نہیں روکتا، لہٰذا آپ کی تشریح غلط ہے۔

بلیغ الرحمٰن کے خط میں مزید کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کا انحصار کرنا غلط ہے کیونکہ اس فیصلے میں شامل حقائق اور حالات واضح طور پر مختلف ہیں۔

گورنر پنجاب نے مزید نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ اسپیکر سبطین خان کی رولنگ صوبائی اسمبلی کے قواعد وضوابط 1997 کے رول 209 کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ آئین کے مطابق اسمبلی کا اجلاس جاری ہے یا دوسری صورت میں آرٹیکل 130(7) کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مزید بتایا گیا کہ پنجاب کے اسپیکر کی رولنگ اور اقدامات کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے روکا گیا۔

خط میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے باز رکھنے اور آئینی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہچانے سے روکنے میں مدد کرنا پنجاب اسمبلی 1997 کے رولز آف پروسیجر کے رول 22 (7) میں بیان کردہ نتائج کا باعث بنتا ہے۔

گورنر ہاؤس میں مشاورت

قبل ازیں، آج شام کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے امید ظاہر کی ہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے حوالے سے رات 10 بجے تک نیا نوٹی فکیشن جاری کریں گے۔

ویراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گورنر ہاؤس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس جاری ہے، جس میں پارٹی رہنماؤں عظمیٰ بخاری، خلیل طاہر سندھو سمیت دیگر نے شرکت کی۔

عطا تارڑ نے کہا کہ دیکھیں، ہماری تو خواہش ہے کہ نہ رہیں، مگر ظاہر ہے ہم قانون اور ضابطے کے مطابق چلیں گے، امید ہے کہ قانون اور آئین میں رہتے ہوئے جو ٹھیک راستہ نکلے گا، اس کو اپنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری مشاورت جاری ہے، جو بھی معاملات آگے چلیں گے، آپ کو آگاہ کیا جائے گا۔

ان سے پوچھا گیا کہ اگر آج وزیراعلیٰ (پنجاب اسمبلی) اجلاس نہیں بلاتے تو کیا گورنر پنجاب 4 بجے کے بعد نوٹی فکیشن جاری کر دیں گے، اس سوال کے جواب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے بتایا کہ ابھی قانونی مشاورت جاری ہے، عدم اعتماد کا ووٹ لینے سے بھاگا نہیں جاتا، یہ ہر حال میں لینا ہوتا ہے، ان شا اللہ اس پر حتمی رائے قائم کر کے آپ کو آگاہ کریں گے۔

آج گورنر ہاؤس میں کوئی اجلاس ہے یا ویسے ہی ملاقات ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری ویسے ہی ملاقات ہے، وہاں پر چند اراکین صوبائی اسمبلی اور ماہرین قانون بھی آئیں گے، اس پر بات چیت کریں گے۔

گورنر کو ’مہم جوئی‘ سے باز رہنا چاہیے، فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے پر ’مہم جوئی‘ سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ نہیں ہوگی جبکہ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے گورنر راج لگانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ نے آج اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تو وہ عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ آج اعتماد کے لیے ووٹنگ نہیں ہوگی اور اس حوالے سے اسپیکر نے اپنی رولنگ دے دی ہے۔

گورنر کو کسی بھی غیرآئینی اقدام سے باز رہنا چاہیے، اسپیکر کی رولنگ آچکی ہے، آج عدم اعتماد پرووٹنگ نہیں ہوسکتی اور آئینی پزیشن بھی یہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گورنر کسی مہم جوئی سے باز رہیں اور باقی کام آئین کے مطابق ہوگا، عدم اعتماد ناکام ہوگی، جمعے کو عمل شروع ہوگا اور اگلے ہفتے عمل مکمل ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد دونوں اسمبلیاں بیک وقت تحلیل کردی جائیں گی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ صوبے میں گورنر راج بھی نہیں لگے گا، آئینی طریقہ کار ہوگا، پنجاب میں ایسی کوئی صورت حال نہیں کہ گورنر راج لگے، پرویز الہٰی وزیراعلیٰ ہیں اور وہ رہیں گے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک اور بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ ’پرویز الہٰی کو 187 ارکان کی مکمل حمایت حاصل ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ (ق) کے 10 رکان نے چوہدری پرویز الہیٰ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، تحریک انصاف کے 177 ارکان کل پرویز الہیٰ کی وزارت اعلیٰ کی حمایت میں اکٹھے ہوں گے‘۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ’پنجاب میں سیاسی بحران اس حقیقت کا اظہار ہے کہ نئے انتخابات واحد حل ہیں‘۔

واضح رہے کہ گورنر پنجاب سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس آج 4 بجے طلب کیا تھا تاہم اسپیکر کی جانب سے اجلاس نہیں بلایا گیا۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گزشتہ روز گورنر پنجاب کے اس حکم کو غیرقانونی اور آئینی کے منافی قرار دیتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے کہا تھا کہ گورنر کے احکامات آئین کے آرٹیکل 54(3) اور 127 سے مطابقت نہیں رکھتے جبکہ ایوان کا اجلاس آرٹیکل 54 (3) اور 127 کے تحت 23 اکتوبر 2022 سے جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اجلاس کے اختتام کے بغیر نیا اجلاس طلب نہیں کیا جاسکتا۔

وزیر اعلیٰ نے آج اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے، رانا ثنااللہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ نے آج اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تو وہ عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تو کابینہ فوری طور پر تحلیل ہوجائے گی اور پی ٹی آئی کی جانب سے آئین کی مزاحمت جاری رہی تو بلیغ الرحمٰن وفاق کو گورنر راج کا کہہ سکتے ہیں۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ گورنر جب چاہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں اور آئین کا آرٹیکل 130 بڑا واضح ہے، آئین میں لکھا ہے وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہ لیں تو وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کا امیدوار مسلم لیگ (ن) سے ہوگا، ہماری طرف سے حمزہ شہباز ہی وزیراعلیٰ کے متفقہ امیدوار ہیں، میرےعلم میں نہیں کہ پرویزالہیٰ سے کوئی ڈائیلاگ ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوگا اور جس امیدوار کے پاس اکثریت ہوگی وہ عہدہ سنبھال لے گا اور اگر کسی امیدوار کے پاس مطلوبہ اکثریت نہ ہوئی تو رن آف الیکشن میں ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے والا امیدوار وزیر اعلیٰ بن جائے گا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ گورنر کی اپروول کے ساتھ اپنا عہدہ برقرار رکھے گا اور گورنر اس وقت تک اپنا اختیار استعمال نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ ایک اجلاس میں چیف منسٹر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہتے۔

رانا ثناللہ کا کہنا تھا کہ پرویزالہٰی خود کہہ چکے ہیں کہ 99 فیصد ارکان اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں، اس کا مطلب وہ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، اس صورت میں گورنر کا فرض تھا کہ وہ گورنر کو اعتماد کاووٹ لینے کا کہتے، انہوں نے اجلاس طلب کرکے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آج 4 بجے وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے اور گورنر پنجاب اپنے ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد ڈیکلیریشن جاری کریں گے جس کے بعد پرویز الہیٰ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک روز مرہ کے معاملات تو چلا سکتے ہیں لیکن کوئی اختیار استعمال نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہ لیں تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے، گورنر کی مرضی ہے جب بھی اعتماد کے ووٹ لینے کا کہہ دیں، ہمیں معلوم ہے کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں اگر ہیں تو ووٹ آف کانفیڈینس لے لیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کچھ بھی کرلے آئین سے مزاحمت نہیں کرسکتی، مزاحمت جاری رہی تو بلیغ الرحمٰن وفاق کو گورنرراج کا کہہ سکتے ہیں، آرٹیکل 234 کے تحت گورنر وفاق کو لکھیں گے کہ آئین پرعمل نہیں ہورہا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور اسٌپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی نے ایوان کا اعتماد کھو دیا ہے۔

مزید بتایا گیا تھا کہ پرویز الٰہی نےجمہوری روایات کا قتل کیا ہے اور ان پر ایوان کے اکثر اراکین کا اعتماد نہیں رہا۔

بعد ازاں گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا تھا، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری سمری کے مطابق گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ اپنے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے اراکین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’چند ہفتے قبل پنجاب کے حکمران اتحاد پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عہدیداروں کے تبادلوں کے حوالے سے سنگین اختلافات سامنے آئے تھے‘۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ اختلافات کے حوالے سے حال ہی میں کابینہ کے ایک رکن کی جانب سے پرویزالہٰی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد دیا جانے والا استعفیٰ ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ 4 دسمبر کو ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ 2023 تک صوبائی اسمبلی کہیں نہیں جارہی ہے جو پی ٹی آئی کے عوام کے سامنے موجود مؤقف کے بالکل برعکس ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پرویز الہٰی کو اسمبلی میں اعتماد حاصل نہیں ہے اور اسی لیے اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئین کی شق 130(7) کے تحت 21 دسمبر کو شام 4 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں