اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2023 کے دوران شرح نمو، مہنگائی و دیگر معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کو یقینی بنانا، اور بیرونی رقوم کے بروقت حصول کو ممکن بنانا ہوگا۔

ایس بی پی کے گورنر کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ 22-2021 میں بتایا گیا کہ اس کے علاوہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے محتاط زری اور مالیاتی پالیسیاں اور غذائی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔

گورنر کی سالانہ رپورٹ 22-2021 جو اسٹیٹ بینک کی اس نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے، یہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 (جنوری 2022 تک ترمیم شدہ) کی شق 39 (1) کے تحت شائع کی گئی ہے، جس کی رو سے گورنر کے اہداف کے حصول، زری پالیسی کے طرز عمل، معیشت کی کیفیت اور مالی نظام کے بارے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو سالانہ رپورٹ پیش کرنی ہے۔

اس شق اور ترمیم شدہ ایکٹ کی شق 4 (بی) میں مندرجہ اسٹیٹ بینک کے اہداف کے مطابق یہ رپورٹ چار الگ الگ ابواب میں منقسم ہے، جو پاکستانی معیشت کی کیفیت اور مالی نظام، قیمتوں کے استحکام اور زری پالیسی کے طرز عمل، مالی استحکام اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کی معاونت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر روشنی ڈالتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ خاص طور پر توقع سے زیاد ملکی طلب اور غیرمتوقع مالیاتی توسیع کے ہمراہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں توقع سے زیادہ اضافے اور زر مبادلہ کی شرح میں کمی ایک ایسے سال میں مہنگائی کو تحریک دینے والے اہم عوامل تھے جو دنیا بھر میں پالیسی سازوں کے لیے غیرمعمولی طور پر اتار چڑھاؤ کا حامل اور دشوار ثابت ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2022 کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس سے کی گئی پیمائش کےمطابق مہنگائی 12.2 فیصد تک پہنچ گئی جو گذشتہ سال 8.9 فیصد رہی تھی، جو مالی سال 2022 کے لیے حکومت کے ہدف 8 فیصد سے اور خود اسٹیٹ بینک کے تخمینے 9 سے 11 فیصد کی رینج سے بھی آگے نکل گئی۔

رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی کہ پاکستان واحد ملک نہیں ہے جہاں مہنگائی سال کے آغاز میں کی جانے والی سرکاری پیش گوئیوں سے زائد رہی، عالمی اقتصادی ماحول ویسے بھی خاصا صبر آزما ہے، جس کی وجہ سپلائی کی عالمی صورتحال میں رکاوٹیں اور روس یوکرین تنازع ہے۔

’اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھی‘

مزید بتایا گیا کہ ملکی طلب توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھی، جس کا بڑا سبب مالی سال 2022 کے دوران غیر منصوبہ جاتی مالیاتی توسیع ہے، سال گزرنے کے ساتھ ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی، بیرونی کھاتے اور روپے پر دباؤ بڑھ گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مہنگائی سے نبردآزما ہونے کے لیے مالی سال 2022 کی پہلی سہ ماہی سے اقدامات شروع کردیے تھے، جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بدلتے ہوئے منظر نامے کے علاوہ مہنگائی، مالی استحکام، اور شرح نمو میں کمی کے خطرات کو متوازن رکھنے کے پیشِ نظر زری سختی کی رفتار سوچی سمجھی رکھی گئی۔

مزید بتایا گیا کہ زری پالیسی کمیٹی کے اجلاسوں کی تعداد بھی سال میں 6 سے بڑھا کر 8 کر دی گئی تا کہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے جواب میں زری پالیسی کی تشکیل زیادہ بہتر طریقے سے کی جائے۔

’مالی سال 2022، پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 675 بیسس پوائنٹس کا اضافہ‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مالی سال 2022 کے دوران پالیسی ریٹ مجموعی طور پر 675 بیسس پوائنٹس بڑھایا گیا جبکہ ملکی طلب کو محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے، مالی نظام کے استحکام میں کردار ادا کرنا بھی اسٹیٹ بینک کے مقاصد میں شامل ہے۔

اس تناظر کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ مالی منڈیوں پر کچھ دباؤ تھا، جس سے مالی اثاثوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور دباؤ آیا، تاہم وہ بغیر کسی خاص رکاوٹ کے ہموار طور پر کام کرتی رہیں، ملک کا مجموعی مالی شعبہ دورانِ سال مستحکم رہا کیونکہ مالی شعبے میں سب سے بڑے حصہ دار بینکاری شعبے کی شرحِ کفایتِ سرمایہ ملک کی ضوابطی ضروریات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیارات سے بھی بلند رہی۔

گورنر کی سالانہ رپورٹ میں ان اقدامات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو اسٹیٹ بینک نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی معاونت کے لیے کیے، جو معاشی ترقی کو فروغ دینے اور پیداواری وسائل کے بہتر استعمال کے اس کے تیسرے مقصد کو پورا کرتے تھے، یہ رپورٹ ملک میں مالی شمولیت، مالی ترقی اور مالی لین دین کی دستاویزیت کو فروغ دینے کی غرض سے اسٹیٹ بینک کی فعال کوششوں کو اجاگر کرتی ہے۔

مزید بتایا گیا کہ ترسیلاتِ زر میں اضافے کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اسکیم اور دیگر اقدامات کیے گئے، تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے نئی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جاسکے ۔

اسی طرح خواتین کی مالی شمولیت کو بہتر بنانے کے لئے ’برابری پر بینکاری ’ پالیسی کا آغاز کیا گیا، اور پاکستان میں ڈیجیٹل بینکوں کے قیام کے لیے ڈیجیٹل بینک فریم ورک مرتب کیا گیا۔

رپورٹ میں مستقبل کے تناظر کے حوالے سے کہا گیا کہ بیرونی اور ملکی پیش رفت کے مسلسل اثرات سے مستقبل قریب کے لیے جو چیلنجز ہیں، وہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں، یہ چیلنج سست رفتار نمو اور مہنگائی اور بیرونی محاذ پر بلند دباؤ کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مالی سال 2023 کے دوران ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی ان میں محتاط زری اور مالیاتی پالیسیاں، غذائی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات، آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کو یقینی بنانا، اور زیرِ منصوبہ بیرونی رقوم کا بروقت حصول شامل ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مجموعی درآمدی بل کو محدود رکھنے کے لیے لازم ہو گا کہ توانائی کی درآمدات کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں، وسط مدت کے دوران، ترقی کے اتار چڑھاؤ سے بچنے اور معیشت کی لچک کو بڑھانے کے لیے جو ساختی اصلاحات ناگزیر ہیں، ان کا تعلق پیداواری صلاحیت، برآمدی مسابقت، اور ملکی بچتوں اور سرمایہ کاری میں اضافے سے ہے ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں