وزیراعلیٰ پنجاب کےخلاف عدم اعتماد کا معاملہ جنوری کے پہلے ہفتے تک جاسکتا ہے، سبطین خان

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2022
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ گورنر نے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیا تو صدرکو خط لکھیں گے — فوٹو: ڈان نیوز
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ گورنر نے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیا تو صدرکو خط لکھیں گے — فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان نے گورنر کے اقدامات کو ایک مرتبہ پھر غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا عمل جنوری کے پہلے ہفتے تک مکمل ہوسکتا ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا کہ گورنر نے خط میں وزیر اعلیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور وزیر اعلیٰ پر اعتماد کے ووٹ حوالے سے بات کی تھی لیکن میں نے جواب دیا کہ جو الزام آپ نے لگایا ہے ان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان اختلافات ہیں جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چوہدری شجاعت حسین کا پنجاب اسمبلی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

سبطین خان کا کہنا تھا کہ گورنر نے کہا کہ فیصل آباد سے ہمارے رکن کاسترو صاحب کو وزارت دی گئی تو یہ پی ٹی آئی کا معاملہ ہے، اسی طرح کہا حسنین بہادر دریشک آپ سے ناراض ہیں اور یہ معاملہ بھی گورنر سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جس سے ان کی بدنیتی کی عکاسی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 130 (7) میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اگر گورنر سمجھتا کہ وزیراعلیٰ نے ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو دیا ہے تو وہ نیا اجلاس طلب کرے گا، لیکن اگر ایک سیشن جاری ہے تو وہ کیسے نیا اجلاس طلب کرسکتا ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ آئین پاکستان اور رولز میں بھی لکھا ہوا ہے جو سیشن گورنر طلب کریں گے وہ گورنر ہی ختم کریں گے اور جو سیشن اسپیکر طلب کرے گا وہ اسپیکر ہی ختم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی اسپیکر کا سیشن چل رہا ہے اور اس میں گورنر اپنا سیشن نہیں بلاسکتے تھے اور جواب میں خط لکھا لیکن جواب میں گورنر نے 209 کا حوالہ دیا جو پوائنٹ آف آرڈر سے متعلق ہے حالانکہ ہم نے اس کی بات نہیں کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کو بچانا یا نہ بچانا میرا درد سر نہیں ہے، وہ حکومت جانے اور ان کا کام جانے، میں ایوان کا سربراہ ہوں اور مجھے اس کا تحفظ اور عزت کا خیال رکھنا ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ آج میں گورنر کو پھر خط بھیج رہا ہوں کہ 209 اے اور 235 کے تحت مجھے پورے اختیارات ہیں اور مجھے آئین کی پاسداری کرنی ہے اور اس طرح کے غیرآئینی احکامات جاری نہ کریں۔

گورنر پنجاب کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایک آئینی ادارے کی نمائندگی کر رہے ہیں تو میں بھی آئینی ادارے کی نمائندگی کر رہا ہوں تو ہم ان کے درمیان تصادم نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی عدم اعتماد پیش ہوئی ہے اور یہ عمل مکمل ہوگا، اگر بہت جلدی ہوئی تو بھی چند دن لگیں گے اور شاید جنوری کے پہلے ہفتے میں یہ عمل مکمل ہو۔

سبطین خان کا کہنا تھا کہ ہم جلدی کرنا چاہتے ہیں اور کل ہمیں اسمبلی تحلیل کرنی تھی لیکن درمیان میں اعتماد اور عدم اعتماد کی رکاوٹیں آگئی ہیں، لیکن عدم اعتماد والا معاملہ جنوری کے پہلے ہفتے تک جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر کے لیے ہمارا خط تیار ہے، اگر گورنر وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی طرف جاتے ہیں تو اس خط والے اختیارات کو ہم استعمال کرتے لیکن میں نے اس کو روک دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میری طرف سے پہل ہو اور جب اس کی نوبت آئے گی تو خط والا اقدام کریں گے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اسمبلیاں ٹوٹیں اور اگر عوام کے پاس جانے کو ہم برا نہیں سمجھتے بلکہ ہم خوش ہیں اور جو روڑے اٹکائے گئے ہیں ان کو ہٹا کر عوام کے پاس جائیں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بات ختم ہوسکتی ہے، اگر گورنر صاحب اعتماد اور عدم اعتماد واپس لے لیں اور اس کے 48 گھنٹے سے اوپر وقت لگائیں تو ہم بدنیتی پر ہوں گے۔

خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے جمعہ، 23 دسمبر کو دونوں اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تھا۔

عمران خان کے اعلان کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سمیت پنجاب کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی اور ساتھ ہی گورنر پنجاب نے بھی وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا تھا۔

گورنر کی جانب سے اسمبلی کا اجلاس طلب کیے جانے کے برخلاف اسپیکر نے ایوان کا اجلاس ملتوی کرتے ہوئے ان کے احکامات غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا تھا۔

اپوزیشن کے اقدامات کے بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا اور اب نئی صورتحال کا سامنا ہے اور خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گورنر وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر ڈی نوٹیفائی کردیں گے۔

تاہم گورنر پنجاب نے اسپیکر کو خط لکھا اور انہیں واضح کیا کہ آپ کا اقدام غیرآئینی اور غیرقانونی ہے۔

گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس 21 دسمبر کو 4 بجے طلب کیا تھا، تاہم اسپیکر کی جانب سے اجلاس نہیں بلایا گیا۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر پنجاب کے اس حکم کو غیرقانونی اور آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے کہا تھا کہ گورنر کے احکامات آئین کے آرٹیکل 54(3) اور 127 سے مطابقت نہیں رکھتے جبکہ ایوان کا اجلاس آرٹیکل 54 (3) اور 127 کے تحت 23 اکتوبر 2022 سے جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اجلاس کے اختتام کے بغیر نیا اجلاس طلب نہیں کیا جاسکتا۔

گورنر کا اسپیکر کو خط

بعدازاں گزشتہ روز گورنر نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کی رولنگ پر ردعمل دیتے ہوئے خط میں ان کے مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مذکورہ حوالوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اسپیکر کی جانب سے اٹھائے جانے والے پہلے نکتے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے 19 دسمبر کے حکم میں کہا تھا کہ اگر جاری اجلاس کو آپ ( اسپیکر) نے آج شام 4 بجے سے پہلے کسی بھی وقت ملتوی کر دیا، تو پھر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے شام 4 بجے نیا اجلاس طلب کیے جانے کی ضرورت ہوگی۔

گورنر پنجاب نے خط میں لکھا کہ اگر اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی جاری ہو تو آئین کا آرٹیکل 130(7) اسے نافذ ہونے سے نہیں روکتا، لہٰذا آپ کی تشریح غلط ہے۔

بلیغ الرحمٰن نے خط میں مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کا انحصار کرنا غلط ہے کیونکہ اس فیصلے میں شامل حقائق اور حالات واضح طور پر مختلف ہیں۔

گورنر پنجاب نے مزید نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ اسپیکر سبطین خان کی رولنگ صوبائی اسمبلی کے قواعد وضوابط 1997 کے رول 209 کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ آئین کے مطابق اسمبلی کا اجلاس جاری ہے یا دوسری صورت میں آرٹیکل 130 (7) کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

گورنر پنجاب نے اسپیکر کو بتایا کہ آپ کی رولنگ اور اقدامات کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے روکا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں