استعفوں کی منظوری کیلئے پی ٹی آئی کے اراکین ذاتی طور پر پیش ہوں، اسپیکر قومی اسمبلی

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2022
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی تجویز پر ان استعفوں کو قبول نہیں کیا جائے گا— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی تجویز پر ان استعفوں کو قبول نہیں کیا جائے گا— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے حال ہی میں پی ٹی آئی کو ایک تازہ خط تحریر کیا ہے جس میں ان کے اراکین اسمبلی سے کہا گیا ہے کہ وہ اپریل میں دیے گئے استعفوں کی تصدیق کے لیے انفرادی طور پر آئیں، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی تجویز پر ان استعفوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق دوسری جانب پی ٹی آئی نے اپنے اراکین اسمبلی کو اسپیکر کے سامنے ’ایک گروپ میں‘ پیش ہونے کی ایک اور کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی 28 دسمبر کو اپنے استعفے منظور کرانے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس جائیں گے۔

اسپیکر نے پارٹی سے پہلے ہی پوچھا تھا کہ قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے رول 43 کے مطابق انہیں پارٹی کے چیئرمین عمران خان سمیت 127 اراکین قومی اسمبلی سے انفرادی طور پر ملاقات کرنی تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا انہوں نے استعفے آزادانہ اور کسی دباؤ کے بغیر دیے ہیں یا نہیں۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو خط لکھا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ پارٹی کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو انفرادی طور پر استعفوں کی تصدیق کے لیے بھیجیں۔

دریں اثنا، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اتوار کو ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں شاہ محمود قریشی کو یاد دہانی کرائی گئی کہ ایم این ایز کو انفرادی طور پر پیش ہونا چاہیے۔

پریس ریلیز میں رول 43 کا بھی تذکرہ کیا گیا جو قانون سازوں کے استعفوں سے متعلق ہے اور کہتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 64(1) کے تحت ایک رکن قومی اسمبلی اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دے گا کہ اگر وہ ذاتی طور پر استعفیٰ اسپیکر کو دیتا ہے تو اپنی نشست سے مستعفی ہوجائے گا اور انہیں یہ مطلع کرے گا کہ استعفیٰ رضاکارانہ اور حقیقی ہے اور اسپیکر کے پاس اس کے برعکس کوئی معلومات یا علم نہیں ہے۔

دریں اثنا، ایک حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مخلوط حکومت ’دباؤ میں‘ ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اسپیکر کو استعفے قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، پی ٹی آئی نے غیر ارادی طور یہ فیصلہ کر کے اس حوالے سے حکومت کو بہانہ فراہم کیا ہے کہ اس کے اراکین اسمبلی انفرادی حیثیت میں اسپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔

پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اپنے استعفے جمع کرائے تھے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپنے خط میں کہا کہ اس نے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو 30 مئی کو طلب کیا اور انہیں 6 سے 10 جون تک ذاتی طور پر پیش ہونے اور استعفوں کی تصدیق کا وقت دیا تھا لیکن ان میں سے کوئی نہیں آیا۔

اسپیکر نے جولائی میں پی ٹی آئی کے 11 اراکین کے استعفے قبول کرنے کی کوئی واضح وجہ بتائے بغیر ہی قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے تھے جن میں ڈاکٹر شیریں مزاری، علی محمد خان، فخر زمان خان اور فرخ حبیب شامل تھے۔

جب پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے اسپیکر سے ملنے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن راجا پرویز اشرف انہیں نظر انداز کر کے اپنا دفتر چھوڑ کر چلے گئے، ہم بدھ کو ان سے ملنے کی ایک اور کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی ان سے ایک ایک کرکے نہیں ملیں گے اور ایک گروپ کی شکل میں پارلیمنٹ ہاؤس جائیں گے۔

فواد چوہدری نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ استعفوں کے معاملے کو دیکھیں اور کہا کہ یہ ملکی تاریخ کا ایک نادر لمحہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی ایک کال پر 127 ایم این ایز نے اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دیا۔

اپنی جماعت کے رہنماؤں پر اثرورسوخ اور گرفت کا موازنہ کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی مریم نواز نے ایک بار اپنے شوہر کے بڑے بھائی اور ایک اور رکن قومی اسمبلی صفدر جاوید عباسی سے استعفیٰ دینے کو کہا تھا لیکن وہ غائب ہو گئے اور اپنے فون بند کر دیے۔

انہوں نے کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بعد ہی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آ سکتا ہے۔

دریں اثنا، حکومت کے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی جانب سے استعفیٰ دینے کے بعد سے ان کی تنخواہیں اور الاؤنسز منجمد کر دیے ہیں اور یہ رقم 20 کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔

ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم انہیں ان کی تنخواہیں نہیں دے سکتے کیونکہ اگر ان کے استعفے منظور ہو گئے تو وہ پچھلی تاریخوں سے لاگو ہوں گے اور اس صورت میں ہم رقم کیسے وصول کریں گے؟۔

انہوں نے کہا کہ کچھ اراکین قومی اسمبلی اب بھی سرکاری رہائش میں موجود ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں