’پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہیں گے‘، مسلم لیگ (ن) کی گورنر پنجاب کو یقین دہانی

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2022
گورنر پنجاب نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی سے کہا کہ وہ ’رن آف الیکشن‘ کی تیاری کریں — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان/ پی ایم ایل کیو فیس بک
گورنر پنجاب نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی سے کہا کہ وہ ’رن آف الیکشن‘ کی تیاری کریں — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان/ پی ایم ایل کیو فیس بک

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ پنجاب اسمبلی کی بڑی تعداد نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی ارکان اسمبلی کی اکثریت کی حمایت کھو چکے ہیں جس کی وجہ سے ان پر اعتماد کا ووٹ لینا لازم ہوگیا ہے۔

دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کہا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی 2 جنوری کو اجلاس کرے گی جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کو 11 جنوری سے پہلے اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے یا نہیں۔

خیال رہے کہ 11 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ میں گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کو ہٹانے کے حکم کے خلاف حکومتِ پنجاب کی درخواست پر اگلی سماعت ہوگی۔

پارٹی رہنما فواد چوہدری نے بتایا کہ ’پنجاب میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس 2 جنوری کو لاہور میں ہو رہا ہے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو صوبائی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ کب لینا چاہیے‘۔

سابق وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’قانون کے مطابق وزیر اعلیٰ کو 11 جنوری سے پہلے یا بعد میں اعتماد کا ووٹ لینا ہے، لہٰذا ہم بہرحال اعتماد کا ووٹ لینے کا ہی فیصلہ کریں گے اور وزیر اعلٰی پنجاب مطلوبہ 186 ووٹ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے‘۔

دوسری جانب گزشتہ روز گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے تقریباً 15 ارکان صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر اس رائے سے اتفاق کیا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا آئینی حکم بالکل جائز تھا۔

اجلاس میں شریک ایک رکن نے بتایا کہ گورنر پنجاب نے ارکان اسمبلی سے کہا کہ وہ ’رن آف الیکشن‘ کی تیاری کریں جبکہ رکن کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے بہت پرامید ہے، پی ٹی آئی کے کچھ ارکان صوبائی اسمبلی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رابطے میں ہیں، جب وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ لینے جائیں گے تو پنجاب میں حکمراں اتحاد کو سرپرائز کے لیے تیار رہنا چاہیے’۔

اس کشمکش کے دوران خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے ارکان صوبائی اسمبلی میں شامل جہانگیر ترین اور علیم خان کے چند ہمدردوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے دونوں رہنماؤں سے بات کی ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان مبینہ طور پر چاہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب 11 جنوری سے پہلے اعتماد کا ووٹ لیں جبکہ صوبائی حکمراں اتحاد کے کچھ ارکان اسمبلی کا مشورہ ہے کہ پہلے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب بحالی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اشارہ دیا تھا لیکن انہوں نے اس حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے لاہور ہوئی کورٹ نے گورنر پنجاب کی جانب سے پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم معطل کر دیا تھا اور پرویز الہٰی کو اس یقین دہانی کے ساتھ بطور وزیر اعلیٰ بحال کر دیا تھا کہ 11 جنوری تک پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی۔

دوسری جانب پرویز الہٰی کے بیٹے مونس الہٰی نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اسمبلی میں ایک اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں