دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی پر غور کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2022
دونوں شخصیات کے درمیان یہ ملاقات کور کمانڈرز کانفرنس کے ایک روز بعد ہوئی—فائل فوٹو:ڈان نیوز
دونوں شخصیات کے درمیان یہ ملاقات کور کمانڈرز کانفرنس کے ایک روز بعد ہوئی—فائل فوٹو:ڈان نیوز

ملک میں بڑھتے دہشت گرد حملوں کے پیش نظر حکمت عملی مرتب کرنے اور انسداد دہشت گردی کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی سے متعلق ملک کے اہم ترین فیصلہ ساز فورم قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

دونوں شخصیات کے درمیان یہ ملاقات جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے ایک روز بعد ہوئی ہے جہاں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے حوالے سے تفصیلی غور اور تبادلہ خیال کیا گیا۔

کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد فوج کی جانب سے جاری اہم بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق دہشت گردی کے خطرات کو ختم کیا جائے گا۔

اس بیان سے ظاہر ہوا کہ فوج کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی تیاری کے ساتھ کسی بھی نئے شروع کیے جانے والے انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے سیاسی قیادت کی جانب سے اس کی اونرشپ کی ضرورت ہے۔

اب تک سخت فیصلوں سے اجتناب کرنے والی اتحادی حکومت معاشی بحران کے درمیان اور آئندہ سال ہونے والے انتخابات سے قبل کوئی بھی بڑا اور فیصلہ کن آپریشن کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔

تاہم اب یہ توقع کی جاتی ہے کہ سنگین اور نازک صورتحال کے تناظر میں بالآخر فوج کی جانب سے سامنے آنے والی رائے اور نقطہ نظر کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

گزشتہ چند مہینوں کے دوران ملک میں امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہوئی، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) عسکریت پسند گروپ داعش اور گل بہادر گروپ جیسے دہشت گرد گروہ ملک بھر میں حملے کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں باغیوں نے بھی اپنی پرتشدد کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ گٹھ جوڑ بنالیا ہے۔

بنوں میں خیبرپختونخوا پولیس کے انسدادِ دہشت گردی ونگ کے تفتیشی مرکز پر پیش آنے والا واقعہ اور اسلام آباد میں خودکش بم حملے نے ناصرف اقتدار کی راہداریوں میں خطرے کی گھنٹی بجائی بلکہ کئی ممالک کو بھی اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کر دیا۔

حالیہ واقعات کے بعد امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور سعودی عرب نے ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ پاکستان میں نقل و حرکت محدود رکھیں اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔

ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران ایک اور اہم معاملہ جس پر غور و خوض کیا جائے گا وہ افغانستان کی حدود سے سرحد پار حملوں میں اضافہ ہے۔

افغان طالبان طویل عرصے سے پاکستان کو عالمی برادری کے ساتھ اپنے رابطوں کے لیے ایک پل کے طور پر دیکھتے رہے ہیں لیکن وہ دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر روایتی افغان مؤقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔

سرحد کی حیثیت کے حوالے سے اختلافات کے باعث اکثر دونوں افواج کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جن میں دونوں طرف کا جانی نقصان ہوتا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے گزشتہ روز ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران بھی افغانستان کے ساتھ سرحدی معاملات پر بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق امور پر افغان حکام کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کر رہے ہیں، افغانستان نے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں، ہمیں امید ہے کہ ان کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عمل کیا جائے گا۔

تاہم اپنی بریفنگ کے دوران انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ طالبان حکام کی جانب سے پاکستان کو کیا یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔

دوسری جانب، کچھ غیر ملکی مشنز کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے یقین دلایا کہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ یہاں مقیم غیر ملکی باشندوں کی حفاظت کی مکمل اہل اور اس کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں موجود تمام غیر ملکی سفارتی مشنز کی حفاظت اور سلامتی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے سختی سے نمٹیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں