لکھاری کراچی میں مقیم محقق ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم محقق ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں سے گوادر کے حوالے سے پریشان کُن خبریں سامنے آرہی ہیں۔ وہاں کچھ لوگ ایک سیاسی رہنما کی سربراہی میں اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اپنی سمندری حدود میں مچھلیوں کے شکار کی اجازت، ماہی گیروں کی بستیوں کا تحفظ، مقامی آبادی کو روزگار کی فراہمی، روزمرہ کے معاملات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عمل دخل محدود کرنے اور تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، یہ سب مطالبات کچھ نئے تو نہیں۔ ان مطالبات کی گونج اس وقت سے سنائی دے رہی ہے جب سے کراچی بندرگاہ کے بعد گوادر بندرگاہ کو ملک کی دوسری سب سے اہم بندرگاہ قرار دیا گیا تھا۔

بندرگاہیں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی سرگرمیاں بہت سے بیرونی سرمایہ کاروں اور ملازمین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ترقی میں مقامی آبادی کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو گوادر کے عوام کے مطالبات بجا ہیں۔ اگرچہ ملک کے زیادہ تر حصوں میں سی پیک کے منصوبے پر کافی کام ہوچکا ہے لیکن دارالحکومت میں بیٹھے سیاستدان سی پیک منصوبے پر ہونے والی پیشرفت جانچنے کے لیے گوادر کو ہی دیکھتے ہیں۔

مکران کے ساحلی علاقے میں سراپا احتجاج مظاہرین کا مؤقف ہے کہ بنا کسی جانچ کے سیکڑوں بڑے ٹرالر گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ وہ اپنی جدید ٹیکنالوجی اور ممنوع جالوں سے چھوٹی مچھلیاں تک پکڑ لیتے ہیں۔

مقامی ماہی گیر آج بھی روایتی طریقوں سے مچھلیاں پکڑنے پر یقین رکھتے ہیں مگر ٹرالرز نے انہیں ماہی گیری کے مواقع سے محروم کردیا ہے۔ مقامی ماہی گیروں کو یہ خطرہ ہے کہ اس سے بھوک اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا جس کے اثرات گوادر، پسنی، کھڈ کوچہ (جو مستونگ میں واقع ہے)، آواران، خضدار اور اس سے متصل علاقوں پر پڑیں گے۔

سراپا احتجاج مظاہرین سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد میں موجودگی اور ان کی سرگرمیوں پر بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس علاقے میں چینی شہریوں کو ممکنہ حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے۔ پورے علاقے میں متعدد چیک پوائنٹس اور نگرانی کی تنصیبات نصب ہیں جس کے باعث مقامی رہائشیوں کو نقل و حرکت میں مشکلات ہوتی ہیں۔ اکثر ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں جس میں مقامی لوگ سیکیورٹی اہلکاروں کی بدسلوکی کا سامنا کرتے ہیں جس کے سبب انتظامیہ اور لوگوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوتی ہے۔

مایوس کُن بات یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں ان شہریوں سے باقاعدہ کسی رابطے میں بھی نہیں ہیں۔ یہ صورتحال ان لوگوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے جو بلوچستان کی (اور قومی) سلامتی کے لیے گوادر کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ جب تک گوادر میں یہ تعطل برقرار رہے گا تب تک ہم سی پیک کے اصل فوائد سے مستفید نہیں ہوپائیں گے۔

مکران کے ساحلی علاقے پر گہرے سمندر کی بندرگاہ بنانے کا تصور پہلی بار 1964ء میں پیش کیا گیا جس پر باقاعدہ مطالعات 1974ء میں شروع ہوئے۔ گوادر بندرگاہ بنانا پاکستان کے 8ویں 5 سالہ منصوبے (98ء-1993ء) کا اہم جز تھا۔ تکنیکی اور مالیاتی فزیبلیٹی اسٹڈیز کے بعد بندرگاہ بنانے کا باقاعدہ فیصلہ لیا گیا اور 2016ء میں گوادر بندرگاہ فعال ہوئی۔

اس کے افتتاح کے موقع پر اس وقت کے وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے کہا تھا کہ صوبے کے اثاثے بلوچ عوام کی ملکیت میں ہوں گے اور عوام کا ان اثاثوں پر زیادہ کنٹرول ہوگا۔ یہ اعلان کیا گیا کہ تقریباً 2 درجن سمندری جہازوں کو مستقبل قریب میں اس بندرگاہ پر لنگرانداز کیا جائے گا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اس سے ہنرمند اور غیر ہنرمند مزدوروں کو فوری روزگار کے مواقع اور مقامی آبادی کو دیگر معاشی مواقع ملیں گے۔ مگر بدقسمتی سے یہ وعدے کبھی بھی سچ ثابت نہیں ہوئے اور ایران کی چابہار بندرگاہ اور آبنائے ہرمز سے گوادر کی قربت کا فائدہ بھی کبھی نہیں اٹھایا گیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر ایسے بہت سے طاقتور مفاد پرست گروہ ہیں جو سی پیک اور چین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کے مخالف ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں نے خارجی پالیسی کے اس اہم جز کے تحفظ کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم سے متعدد کوتاہیاں ہوئیں۔ گوادر منصوبے میں بلوچ عوام کو بہت کم شامل کیا گیا تھا۔ سی پیک اور بلوچستان کے حوالے سے فیصلے لیتے ہوئے مقامی آبادیوں کے مفاد اور ترجیحات کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔

اب گوادر اسمارٹ سٹی ماسٹر پلان منصوبے کو ہی دیکھ لیں جو کچھ عرصے قبل بنایا گیا اور صوبائی حکومت نے اس کی منظوری دی تھی۔ یہ منصوبہ ایسے ماہرین کی جانب سے تیار کیا گیا ہے جنہوں نے مقامی لوگوں کی ضروریات پر توجہ ہی نہیں دی۔

طویل عرصے سے مقامی لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ روایتی بندرگاہوں سے سمندر تک ان کی رسائی کو محفوظ بنایا جائے۔ چونکہ گوادر کی زیادہ تر مقامی رہائشیوں کا ذریعہ روزگار ماہی گیری ہے اس لیے وہ انتظامیہ کے قبضے کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر فشنگ انٹرپرائزز کا قبضہ بیرونی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو نہ دے دیا جائے۔

دیکھا جائے تو گوادر ایک چھوٹا علاقہ ہے جس کی کُل آبادی 2 لاکھ کے قریب ہے۔ ماسٹر پلان منصوبوں سے شہری طرز کے تعمیراتی منصوبوں میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے اس بات کا ڈر ہے کہ ایک بار اگر سرمایہ کاری کا آغاز ہوا تو اس علاقے سے صرف بیرونی سرمایہ کار ہی مستفید ہوسکیں گے۔

یوں مقامی آبادی نہ صرف اہم مواقع سے محروم ہوگی بلکہ وہ اپنے ہی علاقے میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ سیاسی پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی سماجی اقتصادی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ سماجی اور دیگر انفراسٹرکچر میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ لوگ آج بھی تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات کے لیے کوئٹہ سے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔

یہ وسیع تر قومی مفاد میں ہے کہ حکومت ان مسائل کا حل نکالے اور مقامی لوگوں سے سیاسی رابطہ قائم کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اقدامات سے لوگوں کو اعتماد میں لے کہ وہ واقعی اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔


یہ مضمون 4 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Jan 06, 2023 08:56pm
Awaam ki koi zimma daari Nahin sawai mazloom ban janay Keh.... Aur Hammaray lakhaaree...