ایک پکا اور ایک کچا، نہیں نہیں، امرود یا انار کی بات نہیں ہو رہی۔ بڑی بوڑھیاں حمل وغیرہ کی بات یونہی کرتی ہیں تو ہم نے سوچا ہم بھی تھوڑی پریکٹس کر لیں۔

وہ وقت دُور نہیں جب گھر کی بہو بیٹی ناک سکوڑتے ہوئے کہے گی کہ بڑھیا کو کچھ سمجھ تو آتا نہیں، پتہ نہیں کیا اناپ شناپ کہتی رہتی ہیں۔ خیر آنا تو ہے اس سمے کو، آتا ہے ہمیشہ سب کے لیے تو ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

ہم کہہ رہے تھے کہ ایک پکا اور ایک کچا حمل بھگتا کر ہم اپنی پڑھائی اور ہسپتال میں گم ہوچکے تھے۔ ہمارے خیال میں ہماری دنیا مکمل تھی، اب اس سے آگے کیا سوچنا؟ میکے والوں کی عادت نہیں تھی کہ خواہ مخواہ ہم سے کچھ پوچھتے۔ سسرال والوں کی عادت تو تھی مگر ہمت نہیں تھی کہ منہ پر کچھ کہتے۔ ہاں صاحب سے تفتیش جاری رہتی اور مشورے بھی جو اکثر ہم تک پہنچ جاتے۔ ہماری زنبیل میں کافی بہانے موجود رہتے اور نہ بھی ہوتے تو مرضی نامی لاحقہ ہی کافی تھا۔ چونکہ اس دن جب بٹیا رانی نے راگ الاپنا شروع کیا کہ اردگرد سب کے بہن بھائی ہیں تو ان کے کہاں؟

کافی ٹال مٹول کی لیکن وہ بھی آخر ہماری ہی صاحبزادی تھیں، ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ حمل کیسے ہوا؟ یہ علیحدہ کہانی ہے۔ ابھی تو ہم آپ کو زچگی کا قصہ سنانا چاہتے ہیں۔ چونکہ پہلے نارمل ڈلیوری ہوچکی تھی سو کسی کے ذہن میں دُور دُور تک کوئی شائبہ نہیں تھا کہ ہم کچھ اور فیصلہ کریں گے۔

سب سے پہلی مزاحمت ساتھی ڈاکٹرز کی طرف سے ہوئی۔ ’کیوں بھئی کیوں سیزیرین؟‘

اس لیے کہ مجھے نارمل ڈلیوری کروانا اچھا نہیں لگا۔

’لیکن دیکھو دوسری بار کی ڈلیوری پہلی سے آسان ہوتی ہے، سو اس بار اتنی تکلیف نہیں ہوگی۔‘

اگر اس بار کی تکلیف چھینک جتنی بھی ہو، تب بھی نہیں، ہمارا جواب۔

’مگر دیکھو، ڈلیوری کے بعد جلدی چلنا پھرنا ممکن ہے، سیزیرین کے بعد کچھ مشکل ہوتی ہے۔‘

2 دن کے بجائے 4 دن مشکل ہوجائے گی، اس کی کیا فکر؟

’تم نے ضرور پیٹ کٹوانا ہے؟‘

ویجائنا بھی تو کٹتی ہے۔

’نارمل ڈلیوری فطرت کے مطابق ہے۔‘

کیا باقی کام جو ہم کرتے ہیں وہ سب فطرت کے مطابق ہیں؟

’مثلاً؟‘

مثلاً دل کی بند شریانوں میں اسٹنٹ ڈال کر زندگی گزارنا، فیکٹریوں میں بنا ہوا تیل گھی استعمال کرنا، برگر اور پیزا کھانا، پیدا ہونے پر ویکسین انجکشن لگوانا، بچہ پیدا نہ ہو رہا ہو تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کروانا، جینڈر سلیکشن کروانا، الٹراساؤنڈ پر بچے کا جینڈر پتہ کروانا، کینسر ہوجائے تو علاج کروانا، اینٹی بائیوٹکس دوائیں کھانا، نیوکلیئر بم بنانا، گاڑی اور جہاز میں سفر کرنا، سیمنٹ سے بنے محلوں میں رہنا، نظر کمزور ہو تو چشمہ پہننا، بہتے پانی پر ڈیم بنانا، گرمی سردی سے ایئر کنڈیشنر اور ہیٹر کی مدد سے بچنا۔

کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں؟ یہ ڈلیوری کے وقت ہی فطرت کیوں یاد آجاتی ہے؟

مانا کہ ایک ہی راستہ تھا جب تک سائنس نے ترقی نہیں کی تھی۔ لیکن اب دوسرا راستہ بھی ہے۔ اب ہمیں دیکھنا پڑے گا کس راستے کے ذریعے کم نقصان پہنچتا ہے عورت کے جسم کو؟

’تو تمہارا خیال ہے کہ نارمل ڈلیوری میں عورت کے جسم کو نقصان پہنچتا ہے؟‘

ہاں بہت۔ ایک تو یہ بات سمجھو کہ ہر عورت کے حصے میں قابل گائناکالوجسٹ نہیں آتی جو اس عمل کو سہل کرسکے۔

دوسرا اس عمل کے دوران بے پناہ درد برداشت کرنے کے علاوہ جو نقصان ویجائنا مثانے اور مقعد کو پہنچتا ہے اس کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں لگاتا۔

ویجائنا کے کٹنے پھٹنے کے علاوہ جو چھوٹا آپریشن کیا جاتا ہے اس میں ویجائنا کی ایک پوری دیوار کے مسلز کاٹے جاتے ہیں تاکہ بچے کا سر باہر نکل سکے۔ خود سوچو اتنی چھوٹی جگہ سے جب فٹبال سا سر نکلے گا تو کیا حشر ہوگا؟

ایک تو ہماری عورتوں کی غذا اچھی نہیں، دوسرے مسلز کمزور، اوپر سے زور لگا لگا کر بچہ پیدا کرنا۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ 2 بچوں کے بعد ویجائنا ایسی ڈھیلی ڈھالی جیسے کوئی تھیلا ہو اور بعد میں اسی عورت کا شوہر چیختا پھرتا ہے کہ اسے تنگ کروا کر آؤ۔

’توبہ توبہ!‘

اور سنو، ویجائنا کے تھیلا بننے کے علاوہ بے حساب نقصان مثانے اور مقعد کو پہنچتا ہے۔ اکثر عورتوں کا پیشاب پاخانے پر کنٹرول ختم یا کم ہوجاتا ہے جنہیں بڑی بوڑھیاں یہ کہہ کر دلاسہ دیتی ہیں کہ ایسا ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے سو برداشت کرو۔

کبھی کبھار انتہائی تجربہ کار ہاتھوں اور بڑے ہسپتال میں ڈلیوری کروا کر بھی مقعد کو نقصان پہنچ جاتا ہے جو سلائی کے باوجود ٹھیک نہیں ہوتا۔ مقعد جیسا اہم عضو جو پاخانے کو وقت نا وقت آنے سے روکے، اگر بیکار ہوجائے تو سوچو زندگی کیسی ہوگی؟

یہ باتیں پتہ کیوں نہیں چلتیں؟

اس لیے کہ کوئی کہتا نہیں، کوئی بتاتا نہیں، کوئی سمجھاتا نہیں۔ اور اگر میرے جیسا کوئی بتانے کی کوشش بھی کرے تو جھٹلانے والے ہزار۔

اور سنو، بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نارمل ڈلیوری سے زور لگا لگا کر ڈھیلا پڑا ہوا رحم مزید ڈھیلا پڑتا جاتا ہے اور آخر کار ایک دن پورے کا پورا ویجائنا سے باہر آجاتا ہے۔ سوچو 60، 70 برس کی عورت گرتے پڑتے ہسپتال آتی ہے کہ ویجائنا کے رستے سب کچھ باہر نکل آیا۔ لرزتی ٹانگوں اور پوپلے منہ کے ساتھ رحم ٹانگوں کے درمیان لٹکا ہوا۔ سوچو کیا کسمپرسی ہے؟

اور کیا علم ہے تمہیں، گاؤں دیہات کی عورت جب نارمل ڈلیوری سے گزرتی ہے تو کتنی عورتوں کی ویجائنا اور مثانہ فسٹولا بناتی ہیں؟ زچگی کا عمل اگر ایک خاص دورانیے سے زیادہ ہوجائے تو ویجائنا اور مثانے کی دیوار گل سڑ کر جھڑ جاتی ہے نتیجتاً ایسی عورتیں گھر سے نکال دی جاتی ہیں کہ کون بدبو کے ڈھیر کو برداشت کرے؟

ان سب پیچیدگیوں کے علاوہ رحم سے خون نہ رکنے سے زچہ کی موت ہے جسے ہر کوئی یہ سمجھ کر سر سے جھاڑ دیتا ہے کہ اللہ کی یہی مرضی تھی، قدرت کے کاموں میں کیا دخل۔ زچہ عورتوں کے مرنے کی شرح میں ہم دنیا میں سر ِفہرست ہیں، چلو کہیں تو اوّل آئے۔

’لیکن تم تو گاؤں میں نہیں ڈلیور ہو رہی ناں۔‘

ہاں لیکن میرے خیال میں ویجائنا، مقعد اور مثانے کو پہنچنے والا نقصان پیٹ پر آپریشن ہونے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

ایک بات تو رہ ہی گئی، اگر اوزار سے نارمل ڈلیوری ہو تو ویجائنا کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ کمر کی ہڈی کا آخری مہرہ اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ کولہوں کے بل کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہی شدید درد شروع ہوجاتا ہے۔ یہ مہرہ اتنی نازک جگہ پر ہے کہ کچھ زیادہ علاج ممکن نہیں ہوتا۔

’پھر مغرب کی عورت کیوں نارمل بچہ پیدا کرتی ہے؟‘

طاقتور جسم، بچپن سے بہتر غذائی نشوونما، ورزش اور صحت کے بنیادی اصولوں کی آگہی، ذہنی پسماندگی کی غیر موجودگی، نظامِ صحت کا بھرپور ساتھ، زچگی میں ماہر اور مستند اسٹاف، کسی بھی پیچیدگی سے بچنے کے لیے پہلے سے الرٹ۔ پھر چلو ایک، 2 بچے ہوں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن وہاں بھی اپنی درخواست پر سیزیرین کروانے کی شرح 50 فیصد ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ تیسری دنیا کے باسی ان سہولیات کا تصور ہی کرسکتے ہیں۔

’اچھا یہ بتاؤ کہ پہلی ڈلیوری میں ہوا کیا تھا تمہارے ساتھ؟‘

بتاؤں گی، ضرور بتاؤں گی لیکن پہلے سیزیرین لسٹ میں نام تو ڈلوا لوں اپنا۔

’اچھا سنو، شوہر سے مشورہ کرلیا کیا؟‘

مشورہ نہیں کیا، فیصلہ سنایا ہے۔

’کیوں؟‘

اگر میرے پیشاب و پاخانے میں کوئی تکلیف ہوئی تو اسے شوہر صاحب بھگتیں گے یا میں ؟ ہاہاہا۔

صاحبو، ہم یہ بتاتے چلیں کہ آپریشن کے آٹھویں دن ٹانکے کھلوانے کے لیے ہم گاڑی خود چلا کر ہسپتال گئے تھے۔

2 سیزیرین کروا لیے اور آج تک بیٹھے سوچ رہے ہیں پتہ نہیں کن لوگوں کو آپریشن کے بعد ہونے والا کمر درد، پیٹ درد، پھولا ہوا جسم، سوجن، نقاہت، جسم میں ہوا کا داخل ہوجانا اور نہ جانے کیا کیا کچھ ہوتا ہے؟

باقی کہانی آئندہ!

تبصرے (6) بند ہیں

JD MIAN Jan 06, 2023 04:48am
Informative and good article, I think more articles like that should be publish to give informal education to Nation, these type of articles will make a change in our society so that myths and injustice can be eliminated.
Raees Ahmad Jan 06, 2023 07:25pm
Very eyes opening article for male. I am father of two but don't know that my wife passed through this horrible situation Thanks
A Khan Jan 10, 2023 12:19am
An eye opener. Must be a required reading for every male. Thank you.
M. Saeed Jan 10, 2023 10:30pm
But, often the doctors warn that, after a Cesarean Delivery, second is very dangerous because it could end the chances of the alive child birth?
Gg Jan 11, 2023 11:34am
It is just a personal opinion, nothing to do with medical science. There are definite indications for Cesarean but none are properly listed in the article.
Gg Jan 11, 2023 11:36am
Seems more like an advertisement presenting "Cesarean- the panacea".