لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔
لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔

سال 2018ء میں سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر کراچی میں اندازاً 7 ہزار ہاکروں کو سڑکوں سے ہٹایا گیا اور اس کے نتیجے میں ان کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا، یوں ان کے بچوں کا اسکول جانا ترک ہوگیا، کرایہ نہ دینے کی وجہ سے کئی لوگوں کے گھر چھن گئے اور ان کے دہائیوں پرانے کاروباری تعلقات بھی ختم ہوگئے۔

ریاست نے انہیں متبادل مکان دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وعدہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ اندورن اور بیرونِ ملک سے اشیا درآمد کرنے والے، تیار اشیا کو فروخت کرنے والے اور ان کی سپلائی چین سمیت ہر چیز ہی اس سے متاثر ہوئی۔ اس کے نتیجے میں اربوں روپے کا کاروبار اور تجارت ختم ہوئی اور کراچی کی باضابطہ اور غیر رسمی معیشت کو نقصان پہنچا۔

سال 2019ء میں سرکلر ریلوے ٹریک کے اطراف میں 1100 گھروں کو مسمار کردیا گیا جن میں 10 ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر تھے۔ آج تک وہ افراد ان ٹوٹے ہوئے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں نہ کھانا پکانے کی مناسب جگہ ہے اور نہ ہی بیت الخلا۔ ان لوگوں کے بچے بھی اب اسکول نہیں جاسکتے۔ ایک سال کے بعد مئی 2020ء میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ایک سال کے اندر ان افراد کو انفراسٹرکچر کی سہولیات کے ساتھ باعزت طور پر دوبارہ آباد کیا جائے۔ تاہم آج تک اس حکم پر عمل درآمد کا آغاز نہیں کیا گیا۔

کراچی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے گجر، اورنگی اور محمود آباد نالے کے اطراف جو توڑ پھوڑ کی گئی اس کے نتیجے میں بھی ساڑھے 7 ہزار خاندانوں کو بے گھر کیا گیا۔ تاہم اب بھی کراچی ڈوبتا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں کے ڈی اے چورنگی نارتھ ناظم آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے وعدہ کیا تھا کہ حکومت متاثرین کو متبادل رہائش فراہم کرے گی۔ وزیرِاعلیٰ سندھ بھی 2، 3 مرتبہ یہ بات دہرا چکے ہیں۔

2021ء میں بحالی کے ان کاموں کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے تھے تاہم بحالی کا کوئی کام نہیں ہوا اور متاثرین اپنے محلوں یا گھروں میں کھلی جگہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مالی سال 23ء-2022ء کے بجٹ میں بحالی کے کاموں کے لیے مختص اس رقم کو بڑھا کر 9 ارب روپے کردیا گیا تھا۔

حال ہی میں مجاہد کالونی کے مکینوں کے گھر مسمار کردیے گئے۔ ان مکینوں کی اکثریت 1947ء سے وہاں مقیم ہے۔ ان مکینوں کے گھروں کو تجاوزات میں شمار کیا گیا۔ مجاہد کالونی کے 28 ایکڑ میں سے 13 ایکڑ کی لیز سندھ کچی آبادی اتھارٹی سے لی گئی تھی۔ یہ مسماری بہت ہی ظالمانہ انداز میں کی گئی جس میں احتجاج کرنے والی خواتین مظاہرین پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور لڑکیوں کے ساتھ مرد پولیس اہلکاروں نے بدسلوکی کی۔ اس ظلم کے بعد کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی قسم کے معاوضے یا متبادل رہائش کا وعدہ کیا گیا۔

مجموعی طور پر ان تمام کارروائیوں میں کراچی کے 17 ہزار خاندان بے گھر ہوئے ہیں اور اب وہ یہی کرسکتے ہیں کہ یا تو کسی نئی کچی آبادی میں بس جائیں یا پھر کسی کرائے کے گھر میں رہائش اختیار کرلیں۔ اس کے علاوہ ان متاثرین میں تقریباً 40 ہزار بچے بھی شامل ہیں جن کے پاس اب اپنی تعلیم جاری رکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

حکومت شہریوں کو رہائش اور تعلیم فراہم کرنا چاہتی ہے اور یہ بھی شکایت کرتی ہے کہ اس کے پاس اس کام کے لیے مناسب پیسے نہیں ہیں لیکن دوسری طرف حکومت مکانات کی مسماری جیسی اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں ناخواندہ اور بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ بھی کررہی ہے۔

میں نے ہمیشہ ان لوگوں کی بحالی کی بات کی ہے جن کے گھر مسمار کردیے گئے۔ ان لوگوں کو زمین، پانی، ٹرانسپورٹ اور تعمیرات کے لیے قرض کی ضرورت ہے اور یہ اپنے مکان خود تعمیر کرلیں گے۔ کچی آبادیاں ایسے ہی بنتی ہیں۔ میرے دوست تسنیم صدیقی نے بھی حکومتی سرپرستی میں تعمیر کی گئی خدا کی بستی میں یہی کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ ایک نمونہ ہے جسے موجودہ متاثرین کی بحالی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہاں ایک اچھی خبر بھی ہے۔ سندھ واٹر اینڈ ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پراجیکٹ کی ایک دستاویز میں حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان اور بدین کے اضلاع میں اکرم واہ کینال کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے ایک ہزار 246 گھرانوں کے لیے آبادکاری کے انتظام کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر وہاں انسدادِ تجاوزات مہم چلائی گئی تھی۔

دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ ورلڈ بینک نے محکمہ آبپاشی سندھ سے رقم حاصل کی ہے اور حکومت ان تمام لوگوں کو مکمل ریلیف اور معاوضہ دے رہی ہے جو نہر کے راستے میں تھے۔ اس لیے ورلڈ بینک نے کراچی کے نالے کے لیے اختیار کیے گئے انداز سے مختلف انداز اپناتے ہوئے اس نہر پر کام کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔ کراچی میں تو حکومت نے متاثرین کو معاوضہ نہیں دیا تھا اور ورلڈ بینک نے انسدادِ تجاوزات مہم کے متاثرین کی بحالی میں تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ دستاویز ایک اچھی روایت قائم کرتی ہے اور اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ تاہم یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ورلڈ بینک اور حکومتِ سندھ کا اکرم واہ اور کراچی کے نالے اور کچی آبادیوں کے لیے الگ الگ معیار کیوں ہے؟

یہ ضروری ہے کہ تمام بے دخلی ماسوائے جہاں دھوکہ دہی کی گئی ہو، ان کو اس انسدادِ تجاوزات مہم کے مطابق معاوضہ دیا جائے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر اکرم واہ میں چلائی گئی تھی۔


یہ مضمون 07 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں