پی ٹی آئی 9 جنوری کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر رضامند

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2023
ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا کہ 11 جنوری بھی حتمی فیصلے کا دن نہیں ہوگا —فائل فوٹو: فیس بک
ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا کہ 11 جنوری بھی حتمی فیصلے کا دن نہیں ہوگا —فائل فوٹو: فیس بک

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینےکا عمل عدالت کا فیصلہ آنے تک ملتوی کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل عمران خان اور پارٹی رہنما فواد چوہدری کا اصرار تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں 11 جنوری کو ہونے والی سماعت سے قبل اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہے۔

اس حوالے سے چوہدری پرویز الہٰی کو قائل کرنے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی نے 24 دسمبر کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر ایک وفد بھی بھیجا تھا، لیکن مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مونس الہٰی نے عمران خان پر زور دیا تھا کہ وہ عدالتی حکم کا انتظار کریں۔

چوہدری پرویز الہٰی بھی عمران خان کے مؤقف کے برعکس اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ گورنر کے حکم کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے اور اعتماد کا ووٹ لینے سے گورنر کے حکم کی توثیق ہوجائے گی۔

یہ بیان سابق وزیراعظم کو ناگوار گزرا تھا جنہوں نے اس کے ردعمل میں متنبہ کیا تھا کہ اسمبلی کی تحلیل میں رکاوٹ پیدا ہونے کی صورت میں وہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کی ہدایت دے دیں گے۔

سابق وزیر اعظم نے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر پنجاب کے وزرا کے ہمراہ مشاورتی اجلاس میں سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور بظاہر اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے مشیر انہیں اعتماد کے ووٹ کے بارے میں درست مشورہ نہیں دے رہے۔

مشاورتی اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اسمبلی کے 9 جنوری کو ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں اعتماد کا ووٹ شامل نہیں ہوگا۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا کہ 11 جنوری بھی حتمی فیصلے کا دن نہیں ہوگا بلکہ اس روز اعتماد کے ووٹ اور وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کا آغاز ہوگا۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ عمران خان اس بات پر نالاں تھے کہ انہیں اپنے بیانات واپس لینے پر مجبور کیا گیا لیکن انہوں نے صوبائی کابینہ کے ارکان کی اس رائے سے اتفاق بھی کیا کہ اجتماعی طور پر استعفیٰ دینا کوئی حل نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب کابینہ کی اکثریت کی رائے ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں رہنا چاہیے اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کی راہ ہموار کرنے کے لیے نئے انتخابات کا مطالبہ جاری رکھنا چاہیے۔

پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کو اجتماعی طور پر استعفے نہیں دینے چاہئیں‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کو اس طریقے سے تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو حکومت اور الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کرانے پر مجبور کردے گا‘۔

ملاقات کے دوران عمران خان نے اپنے وزرا سے کہا کہ اگر اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہو۔

انہوں نے پارٹی رہنماؤں سے مزید کہا کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی کے ساتھ مؤثر طریقے سے رابطہ کریں تاکہ اعتماد کا ووٹ یا وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے درکار ووٹوں کی مطلوبہ تعداد حاصل کی جاسکے۔

معاشی بحران کے پیش نظر کچھ وزرا نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ رواں ماہ کے بعد حکومت چھوڑ دیں، اُن کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کو اقتدار کی راہداریوں سے دور رہنا چاہیے کیونکہ پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے، اس صورتحال میں پی ٹی آئی کو چاہیے کہ پی ڈی ایم حکومت اور بااختیار قوتوں کی غلطیوں کی ذمہ داری خود پر نہ لے۔

وزرا کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے عمران خان نے پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کو اگلے عام انتخابات کے لیے بھرپور طریقے سے تیار رہنے کی ہدایت دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں