لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

ملک کی گرتی ہوئی معیشت، کمر توڑ مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور دوبارہ سر اٹھاتے دہشتگردی کے عفریت کے پس منظر میں ملک میں جو سیاست کی جارہی ہے اس کے لیے ذہن میں رزیل کا لفظ ہی آتا ہے۔

اقتدار کے حصول کی کوشش سیاست کا ایک لازمی جز ہے کیونکہ سیاستدان اور ان کی جماعتیں ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد ہی اپنے وعدوں کو پورا کرسکتی ہیں اور اپنے منشور پر عمل درآمد شروع کرسکتی ہیں لیکن یہ کوشش جمہوری اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے اور اسے زمینی حقائق سے الگ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ماہرِ تعلیم فیصل باری نے جمعے کے روز ڈان میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا کہ لوگوں کو کس طرح کی معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور یہاں تک کہ ماضی میں جو طبقات معاشی بدحالی سے محفوظ تصور کیے جاتے تھے وہ بھی ان مشکل معاشی حالات کے اثرات برداشت کررہے ہیں۔

اب تو ماہانہ لاکھ روپے کے آس پاس کمانے والے لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں تو سوچیے کہ 30 فیصد مہنگائی میں کم آمدن والے یا بے روزگار افراد کا کیا حال ہوگا۔

میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس دور میں 4 لوگوں کا خاندان کم از کم ماہانہ آمدن سے دوگنے یعنی 50 ہزار روپے میں بھی کس طرح گزز بسر کرسکتا ہے (میں اور آپ دونوں ہی یہ بات جانتے ہیں کہ کئی لوگ اس کم از کم تنخواہ سے بھی کم کماتے ہیں)۔ ان لوگوں کو گھروں کے کرائے، پانی، بجلی، گیس کے بل اور بچوں کے اسکول کی فیسیں دینی ہیں اور پھر انہیں گھر والوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔ یقیناً ان لوگوں کو سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہوگی۔

مجھے میرے صحافی دوستوں نے بتایا کہ انہیں کم کرائے کے گھروں میں منتقل ہونا پڑا اور اپنے بچوں کو نسبتاً سستے اسکولوں میں داخل کروانا پڑا لیکن پھر بھی ان کا گزارا مشکل سے ہی ہورہا ہے۔ ایک والد کے طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اپنے بچوں کو کم معیار کے اسکولوں میں داخل کروانا سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی چیز ہوتی ہے۔

افراطِ زر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہے کہ معاشی اعتبار سے نچلے طبقے کے افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی اسکیموں کے تحت دی جانے والی براہِ راست نقد سبسڈی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتائیں کہ یہ معمولی نقد رقم کتنے دنوں تک ایک غربت زدہ خاندان کے لیے صرف کھانے کا انتظام بھی کرسکے گی۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سیاسی رہنما چاہے ان میں وہ لوگ ہوں جنہیں بدعنوان کہا جاتا ہے یا پھر وہ جن کے پاس ’صادق‘ اور ’امین‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے، ایک دوسرے کے خلاف اپنی متعصبانہ روش کے ساتھ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسا اس دوران بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے گوچی جوتوں، ییزی ٹرینرز اور برکن ہیڈ بیگ جیسی مہنگی اشیا اور 40 ایکڑ پر بھیلی جائیداد کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔

ان میں سب سے زیادہ کفایت شعار سیاستدان بھی اُن ایس یو ویز میں سفر کرتا ہے جنہیں خریدنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ میں نے 40 سال نوکری کی ہے اور میں خوش قسمت رہا ہوں کہ میں نے میڈیا میں کچھ بہترین جگہوں پر کام کیا ہے۔ تو یہ بات درست ہے کہ یہ لوگ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کو کسی اور طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غریبوں کو نعرے لگانے والوں کے علاوہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ اس نظام کو ملک کی سول ملٹری اشرافیہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تیار کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ جبکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ایک پریشانی سے نکلتے ہیں تو دوسری پریشانی ان کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور وہ ایک سے دوسرے دن تک پہنچنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔

معلوم نہیں ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے آرام دہ مقامات سے دیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن صورتحال تیزی سے ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے یا پھر ہوگئی ہے۔ سراسر نرگسیت سے لے کر مادی لالچ اور شان و شوکت تک جو کچھ بھی ہمارے لیڈروں کو متحرک کرسکتا ہے، اب انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بنیادی تنظیمِ نو ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور یہ کہ کرائے کی معیشت سے فائدہ اٹھانے والی اشرافیہ کے دن ختم ہوچکے ہیں۔

اب اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ساتھ بیٹھنے اور معیشت کے بحالی کے اقدامات پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کرنا ہوگا جس سے ترقی میں اضافہ، روزگار کے مواقع بڑھیں، برآمدات میں اضافہ ہو اور ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ہو جو ہماری اکثر مشکلات کی وجہ ہے۔

کسی بھی معاشی پالیسی کا اوّلین مقصد غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس نظام سے باہر بیٹھے شخص کے لیے یہ دونوں ہی قصور وار ہیں کیونکہ جب دُور رس فیصلے کرنے کی گنجائش موجود تھی تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا۔

دفاعی اخراجات میں کٹوتی کے بارے میں بات کرنا بے معنی ہے کیونکہ اسے تو ناقابلِ سمجھوتا سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن آخر کب تک؟ اشرافیہ کی طرف سے ایک دوسرے کو ہر سال اربوں کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ اس کو روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ قومی دولت کو لوٹنے کے مترادف ہے، اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ اس سرمایہ دارانہ ماڈل کو بھی ناقابلِ عمل بنا دیتے ہیں جسے ہم پیار سے قبول کرتے ہیں۔

ہماری اگلی مردم شماری یہ بتائے گی کہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 50 لاکھ ہے یا پھر 22 کروڑ یا اس بھی زیادہ۔ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 65 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ ملک کی آبادی میں نوجوانوں کا حصہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔

ممکنہ طور پر اچھی صحت کے حامل اس بہت بڑے نوجوان طبقہ کے پاس کام کرنے کے 30 سے ​​40 سال ہیں۔ اسے اکثر یوتھ بلج کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک جس میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہوں جو ریٹائرمنٹ اور پینشن سے کئی دہائیاں دُور ہوں، وہاں ان لوگوں کو ایک اثاثے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ کیونکہ وہ واقعی ایک اثاثہ ہیں۔

لیکن غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ناکام ہوتی ہوئی معیشت میں یہ اثاثہ ایک ٹائم بم بن سکتا ہے۔ لاکھوں بے روزگار نوجوان بہت جلد بے چین ہوسکتے ہیں اور افراتفری کو ہوا دے سکتے ہیں۔ کیا ہمارے لیڈر اس خطرے کو دیکھ سکتے ہیں؟

تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی ایک بار پھر عروج پر ہے۔ وزیرستان اور سوات میں امن کے لیے مظاہرہ کرنے والے ہزاروں لوگوں کے خدشات کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دوران معاشی گراوٹ کو روکنے کے اقدامات بھی کرنے ہیں۔ ہم اس وقت ملک کے دیگر علاقوں میں بے روزگاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔


یہ مضمون 08 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ali Jan 10, 2023 03:56pm
When crooked and fraudulent politicians are our leader then definitely this will happen.