حکومت کا ای بائیکس خریدنے کیلئے 17 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دینے کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2023
اس اسکیم کو ابتدائی طور پر اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی میں شروع کیا جاسکتا ہے — فائل فوٹو: جولٹا الیکٹرک
اس اسکیم کو ابتدائی طور پر اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی میں شروع کیا جاسکتا ہے — فائل فوٹو: جولٹا الیکٹرک

وزارت صنعت و پیداوار نے پیٹرول کی کھپت کم کرنے اور کاربن کے اخراج پر قابو پانے میں مدد کے لیے ابتدائی طور پر 18 ماہ میں ایک لاکھ ای بائیکس تیار کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ای بائیکس کی خریداری سے متعلق اسکیم کو کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید غور و خوض اور مالیاتی ماڈل پر کام کرنے کے لیے اسے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو بھیج دیا تھا۔

وزارت صنعت و پیداوار نے نسبتاً مہنگی بائیک کی خریداری کی حوصلہ افزائی کے لیے 3 برسوں کے دوران 17 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز دی ہے۔

منصوبے کے مطابق حکومت ایک ای-بائیک کی خریداری کے لیے 90 ہزار روپے کی ڈاؤن پیمنٹ کرے گی جب کہ اس کی لاگت ایک لاکھ 70 ہزار روپے ہے جب کہ خریدار کل ادائیگی ایک لاکھ روپے میں سے ابتدا میں 10 ہزار روپے ادا کرے گا۔

یہ تجویز کیا گیا ہے کہ حکومتی ضمانتوں کے ساتھ بینک کائیبور پلس 2 یا 19 فیصد پر 70 ہزار روپے کا قرض فراہم کرے گا جس کا تخمینہ 13 ہزار 300 روپے ہے۔

مجوزہ اسکیم کے تحت 24 ماہ میں قسطوں پر ای بائیک فراہمی کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کے تحت خریدار 4 ہزار 310 روپے ماہانہ ادا کرے گا جس میں 2 ہزار 917 روپے کی اصل رقم، ایک ہزار 109 روپے سود کی ادائیگی اور 2 فیصد کے حساب سے 284 روپے انشورنس کی ادائیگی شامل ہے۔

وزارت صنعت و پیداوار کو توقع ہے کہ منصوبے کے تحت جاری مالی سال کے دوران 15 ہزار ای-بائیکس کی تیاری/فروخت ہوگی جب کہ مالی سال 24-2023 اور مالی سال 25-2024 میں بالترتیب 60 ہزار اور ایک لاکھ ای-بائیکس تیار کرنے کا ہدف ہے، اس منصوبے کے مطابق 3 برسوں کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ 70 ہزار ای بائیکس کی تیاری اور پیداوار مکمل کی جائے گی۔

سبسڈی پروگرام کے تحت تنخواہ دار والدین کے زیر تعلیم بچوں، طالبات اور خواتین ملازمین کے لیے 20 فیصد کوٹہ مختص کیا جائے گا، خواجہ سرا شہریوں کے لیے ایک فیصد کوٹہ رکھا جائے گا جب کہ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین، نجی شعبے کے تنخواہ دار/سیلف ایمپلائیڈ افراد جن کے پاس این ٹی این اور بینک اکاؤنٹ ہے، حکومت/مسلح افواج کے پنشنرز، وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان کی جانب سے توثیق شدہ انسٹی ٹیوٹ سے مستند تعلیم یافتہ امام مسجد/حافظ قرآن افراد کو ای بائیکس فراہم کی جائیں گی۔

اسکیم کے ورکنگ پیپر میں 3 سبسڈی ماڈل تجویز کیے گئے ہیں جن میں نقد خریداری بھی شامل ہے جس کے تحت حکومت بینکوں کے ذریعے ایک لاکھ روپے دے گی اور صارفین اپنے ذرائع سے 70 ہزار روپے کی ادائیگی کریں گے۔

سبسڈی لیزنگ ماڈل کے تحت ایک لاکھ روپے حکومت اور صارفین کے اشتراک کی بنیاد پر دیے جائیں گے جب کہ 70 ہزار روپے حکومت کی جانب سے 50 فیصد کریڈٹ گارنٹی کے ساتھ بینک قرض کے طور پر فراہم کریں گے۔

تیسرے ماڈل کے تحت سبسڈی کی 30 فیصد ڈاؤن پیمنٹ حکومت کرے گی جس میں 50 فیصد فنانسنگ سبسڈی اور 50 فیصد کریڈٹ گارنٹی کے تحت ہوگی۔

اسکیم کے تحت یہ تجویز ہے کہ پی ایس او کو ٹاسک دیا جاسکتا ہے کہ وہ مخصوص شہروں میں منتخب آؤٹ لیٹس پر ای وی چارجرز اور کمرشل چارجنگ کے لیے شمسی ٹیرف کے مطابق میٹرنگ کے لیے خصوصی میٹر نصب کرے۔

اس اسکیم کو ابتدائی طور پر اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی میں شروع کیا جاسکتا ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق اس وقت پاکستان میں موٹر سائیکلیں اور آٹو رکشہ بنانے والی 90 کمپنیاں ہیں اور ملک سالانہ 60 لاکھ موٹر سائیکلیں بنا سکتا ہے، اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ 22 کمپنیوں کو ای بائیکس بنانے کے لیے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jan 08, 2023 04:15pm
ای بائیکس کے بجائے یہ 17 ارب روپے عوام کو 30000 لاگت کے ایک سولر پلیٹ، ایک سولر پنکھے، دو سولر بلب، ایک بیٹری کے لیے دیے جائیں تو اس کے ذریعے 600000 گھروں کا اندھیرا دور ہو سکتا ہے اس طرح بجلی کی ضرورت کم ہو جائے گی۔ ملک اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ مختلف آبادیوں میں 12 سے 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور عوام کو بے حد اذیت کا سامنا ہے ۔ بجلی نہ ہونے کے باعث بچوں کی پڑھائی کا بھی بے اندازہ نقصان ہو رہا ہے ۔اگر ان کے گھر روشن ہوگئے تو طالب علم اپنی پڑھائی پر بھی توجہ دے سکیں گے۔ پہلے بھی ملین ڈالروں کا سولر پلانٹ لگایا گیا اگر اس کی جگہ بجلی کے ہر صارف کو ایک سولر پلیٹ دے دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا۔ صفائی اور مینٹیننس خود کرتے۔ سولر آلات پر حکومت تشہیر کے لیے وزیر اعظم یا کسی کی تصویریں بھی لگا سکتی ہے مگر اصل مقصد عوام کا فائدہ ہی ہونا چاہیے۔