برازیل: سابق صدر کی حمایت میں احتجاجی کیمپ پر پولیس نفری تعینات

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2023
مظاہرین کے منصوبے میں برازیلیا کے آرمی کمانڈ ہیڈکوارٹر کے سامنے کیمپ کا انعقاد کرنا بھی شامل تھا — فوٹو: رائٹرز
مظاہرین کے منصوبے میں برازیلیا کے آرمی کمانڈ ہیڈکوارٹر کے سامنے کیمپ کا انعقاد کرنا بھی شامل تھا — فوٹو: رائٹرز

برازیل کے دارالحکومت میں انتہائی دائیں بازو کے سابق صدر جیئر بولسونارو کی حمایت میں قائم احتجاجی کیمپ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے جہاں ایک دن قبل مشتعل افراد نے سرکاری عمارات پر حملے کیے تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق دارالحکومت برازیلیا کے آرمی ہیڈکوارٹرز کے قریب قائم کیمپ کے ارد گرد سیکڑوں پولیس اہلکار موجود ہیں جن میں متعدد اہلکار گھوڑوں پر بھی سوار ہیں جہاں گزشتہ روز سابق صدر جیئر بولسونارو کے ہزاروں حامیوں کے کانگریس، سپریم کورٹ اور صدارتی محل پر دھاوا بولنے کے بعد فوجی اہلکار پیچھے ہٹ گئے تھے۔

خیال رہے کہ 1980 کے بعد جمہوری نظام میں واپسی کے بعد برازیل میں سابق صدر کے حامیوں نے سرکاری اداروں پر حملے کیے اور عمارتوں کے شیشے، فرنیچر توڑ دیے جبکہ کچھ اداروں سے اسلحہ بھی چوری کرلیا۔

جیئر بولسونارو کے حریف صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے اکتوبر 2022 میں انتخابات جیتنے کے بعد یکم جنوری 2023 کو منصب سنبھالتے ہوئے عزم کیا تھا کہ سرکاری اداروں پر حملہ کرنے والے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق آج سیکڑوں مظاہرین سابق صدر کی حمایت میں احتجاج کے لیے نکل آئے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ انتخابات چوری کیے گئے ہیں۔

سرکاری اداروں پر حملوں کی امریکی صدر جو بائیڈن اور دنیا کے رہنماؤں نے مذمت کرتے ہوئے ایسے عمل کو اشتعال انگیز قرار دیا، جبکہ سابق صدر جیئر بولسونارو نے اپنے حامیوں کو بھڑکانے کے الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مشتعل افراد نے ’لائن کراس کردی‘۔

برازیل کی سپریم کورٹ کے جسٹس الیگزینڈر ڈی موریس نے برازیلیا کے گورنر کو سیکیورٹی کی مبینہ ناکامی پر 90 دن کے لیے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا جبکہ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول فیس بک، ٹوئٹر اور ٹک ٹاک کو جمہوریت مخالف پروپیگنڈا پھیلانے والے صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کرنے کا بھی حکم دیا۔

صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے کہا کہ مقامی پولیس فورس نے برازیلیا کے گورنر ایبانیس روچا کو اطلاع دی جنہوں نے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے دارالحکومت میں عوامی تحفظ کے لیے وفاقی مداخلت کا حکم دیتے ہوئے ’فاشسٹ‘ حملہ کرنے والے رہنماؤں کو مثالی سزا دینے کا عزم کیا۔

صدر لوئز لولا نے نمائندگان کو بتایا کہ ’حملوں میں جو بھی ملوث ہیں ان کو تلاش کرکے سزا دی جائے گی۔‘

انہوں نے سابق صدر بولسونارو پر انتخابات میں فراڈ کے بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر اپنے حامیوں کو اشتعال کرنے کا الزام عائد کیا۔

تاہم فلوریڈا میں مقیم سابق صدر جیئر بولسونارو نے موجودہ صدر کے الزامات کو مسترد کردیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں سابق صدر نے کہا کہ پرامن مظاہرے جمہوری حق ہیں مگر سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنا ’لائن کراس کرنا ہے۔‘

برازیل پولیس نے حملے کے تین گھنٹے بعد دارالحکومت کی سرکاری عمارتوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے مشتعل ہجوم کو منتشر کرلیا۔

وزیر قانون فلاویو ڈینو نے کہا کہ 200 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے، تاہم گورنر نے عدالت کے اس اقدام کا اعلان کرنے سے پہلے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ گرفتار مظاہرین کی تعداد 400 ہے۔

گورنر یبانیس روچا نے کہا کہ تحقیقات کا مطلب یہ معلوم کرنا ہے کہ جیئر بولسونارو کے حامیوں کو برازیلیا لانے والی کئی سو بسوں کی مالی اعانت کس نے کی اور سیکیورٹی کی تیاری نہ کرنے پر گورنر سے بھی تحقیقات کی جائے گی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو موصول پیغامات میں ایسے گروپوں کے ارکان کو دکھایا گیا جو ملک کے کئی شہروں میں میٹنگ کا اہتمام کرتے رہے جہاں سے چارٹرڈ بسیں سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنے کے ارادے سے برازیلیا کے لیے روانہ ہوئیں۔

مظاہرین کے منصوبے میں برازیلیا کے آرمی کمانڈ ہیڈکوارٹرز کے سامنے کیمپ کا انعقاد کرنا بھی شامل تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں