لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کررہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے تمام حدود عبور کرلینے کے بعد ملک میں آگے کیا ہونے والا ہے؟

تمام تر تحفظات اور شکوک و شبہات کے باوجود پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل کرچکے ہیں۔ عمران خان کی اپنی جماعت اور اتحادی اراکین نے بھی اس فیصلے کو تسلیم کیا، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے پلانٹ کیا ہے۔

پارٹی کے اندر اختلاف اور حکومت جانے کے خوف کی افواہوں کے باوجود اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی اسے تسلیم کرلیا ہے اور انتخابات میں التوا کے بجائے خود بھی اب انتخابات کی تیاریاں کررہی ہے۔

جیسے ہی ملک عام یا صوبائی انتخابات کی جانب بڑھے گا یا پھر ان کے انعقاد روکنے کی کوشش کی جائے گی، اس سب کے دوران 3 عوامل آنے والے حالات کے لیے نہایت اہم ثابت ہوں گے۔

اسمبلی کی تحلیل

اسمبلی کی تحلیل کی بات کی جائے تو اس فیصلے سے پڑنے والے نفسیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صرف اس لیے نہیں کہ اب عمران خان اپنی نئی حکمتِ عملی بنانے کے بجائے اتحادی حکومت کو اپنے فیصلے پر ردِعمل دینے پر مجبور کررہے ہیں بلکہ اس وجہ سے بھی کہ پی ٹی آئی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جس خیال کی مبیّنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف تھی۔

اگرچہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بھی اس جانب اشارہ کیا تھا لیکن وزیرِاعلیٰ پرویز الہٰی خود بھی اپنے حالیہ انٹرویوز میں کہتے نظر آئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ قبل ازوقت انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔ پھر دوسری طرف پی ٹی آئی کی صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان پر دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ وہ وزیرِاعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ نہ دیں۔ فون کالز سے لے کر دھمکیوں تک، یہ تمام دعوے سچ لگنے لگے ہیں۔ 4 سال قبل مسلم لیگ (ن) بھی اسٹیبلشمنٹ پر اسی طرح کے الزامات لگاتی نظر آتی تھی۔

تو اب عام خیال یہ ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کرنے اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ عمران خان اس قدر مقبول ہیں کہ حلقے کے سیاستدان اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کھڑے ہونے کے لیے مقتدر حلقوں کے خلاف جانے کو بھی راضی ہیں۔ اس رجحان کا سیاسی ماحول پر گہرا اثر پڑے گا جو پنجاب کے انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا جوابی وار

پی ڈی ایم کو بھی اسی طرح کی نفسیاتی شکست کا سامنا ہوا ہے۔ لیکن اگلے انتخابات میں شکست یا پھر مہنگائی ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کے اندرونی اختلافات ہیں۔ دوسری جانب ان کی مرکزی قیادت منظر سے غائب ہے جو ناقابلِ فہم بات ہے۔

وزیرِاعظم شہباز شریف بطور وزیرِاعظم اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس جماعت کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ان کے سیاسی کردار کی کسی کو توقع بھی نہیں تھی۔ جیسے 5 سالہ اقتدار میں آصف علی زرداری نے اپنا مضبوط سیاسی کردار ادا کیا اور جس حوالے سے عمران خان پر بھی تنقید ہوئی کہ انہوں نے اپنے دور میں سیاسی معاملات اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیے تھے۔

اور اگر باقی خاندان کی بات کی جائے تو وہ کسی بات سے ناراض ہوکر لندن میں اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ نواز شریف اپریل میں حکومت لیے جانے، آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کرنے اور جماعت کی مقبولیت کھو دینے پر نالاں نظر آرہے ہیں۔ اور چونکہ وہ ناراض ہیں اس لیے انہوں نے مریم نواز کو اپنے پاس بلا کر انہیں بھی سیاسی منظرنامے سے دُور کردیا ہے۔

مزید یہ کہ حمزہ شہباز بھی ناراض ہیں کیونکہ کہیں کسی نے فیصلہ کرلیا ہے کہ پنجاب کا وزیرِاعلیٰ شریف خاندان کا نہیں ہونا چاہیے۔ یا پھر ممکن ہے کہ ناراضی کی وجہ مریم نواز کو نواز شریف کی جانب سے سیاسی وارث سمجھا جانا ہو؟ خیر وجہ کوئی بھی ہو، فی الحال وہ بھی سیاست سے دُور ہیں۔

نتیجے کے طور پر ضمنی انتخابات اور دیگر معاملات میں پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت نے کوئی رہنمائی نہیں کی۔ ذرا غور کریں کہ پنجاب میں تحریکِ عدم اعتماد کو غیر منتخب عطا تارڑ اور رانا ثنااللہ نے چلایا۔ یعنی جس وقت رانا ثنااللہ کو ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے میں مصروف ہونا چاہیے تھا اس وقت وہ لاہور میں مصروف تھے۔

لیکن آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ وہ کیسے اپنے خاندانی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے اور اس کے لیے صرف مریم نواز کی وطن واپسی کافی نہیں ہے، شریف خاندان کو مفاہمت اور جارحانہ سیاست کے بجائے، ایک نظریے کے تحت سیاسی محاذ پر متحد ہونا پڑے گا۔

یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پارٹی کی حمایت اب صرف وسطی پنجاب تک محدود ہوچکی ہے (پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے برخلاف جو اپنے صوبوں میں پوری طرح غالب ہیں) اور اگر پی ٹی آئی پنجاب میں بھی مضبوط ہوگئی تو مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

معیشت

تیسرا عنصر جو ہمیں آنے والے انتخابات میں مدِنظر رکھنا چاہیے وہ ہے ہماری معیشت۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونے یا ہونے کے دوران اسحٰق ڈار ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے اور پیٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ یوں اس انتہائی مصروف ویک اینڈ کے دوران ہمیں یاددہانی کروائی گئی کہ آئی ایم ایف پروگرام ابھی بھی تعطل کا شکار ہے اور امکانات یہ ہیں کہ کراچی کی بندرگاہ پر سرگرمیاں متاثر رہیں گی، ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور ہماری معیشت یونہی غیر مستحکم رہے گی۔

بدقسمتی سے، اب پنجاب میں ہونے والے انتخابات کے پیشِ نظر مسلم لیگ (ن) آئی ایم ایف کے پروگرام اور اس کے نتیجے میں مہنگائی میں ہونے والے اضافے کی جانب متوجہ بھی نہیں ہے۔ لیکن آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ملک میں جاری یہ بحران سنگین صورت اختیار کرلے گا۔

تو میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ہونے والی تاخیر کے سبب ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی مدت میں توسیع تو کیا ماندہ مدت بھی پوری کرنے کے ارادے میں نہیں لگتی۔ اگر وہ اپنی حکومتی مدت میں توسیع چاہتی تو وہ انتخابات سے قبل کوشش کرتی کہ جلد از جلد ہر حال میں آئی ایم ایف پروگرام کو حتمی شکل دے دے۔

اگر انتخابات اگست کے مہینے میں متوقع ہیں تو وہ موجودہ صورتحال کو آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر قابو میں نہیں کرسکتے کیونکہ ماہرینِ معیشت (جنہوں مہربانی کرکے مجھے موجودہ معاشی صورتحال کی وضاحت دی) کا کہنا ہے کہ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر جلد ختم ہونے والے ہیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ اسحٰق ڈار اتوار کے روز عوام کے سامنے آئے تھے۔ شاید یہ اپنی جماعت کے حمایتیوں سے وعدہ تھا کہ اقتدار میں رہتے ہوئے پارٹی ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ عوام پر بوجھ نہ ڈالے۔


یہ مضمون 17 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں