انتونیو گوتیرس کی بڑی آئل کمپنیوں پر تنقید، شیری رحمٰن کے گلوبل وارمنگ کے ذمے داروں پر لفظی حملے

19 جنوری 2023
ان کا کہنا تھا کہ تیل کی کچھ بڑی کمپنیوں نے بڑے جھوٹ بولے اور تمباکو کی صنعت کی طرح ان ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ان کا کہنا تھا کہ تیل کی کچھ بڑی کمپنیوں نے بڑے جھوٹ بولے اور تمباکو کی صنعت کی طرح ان ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے تیل کی بڑی کمپنیوں کو گلوبل وارمنگ میں ان کے کردار سے متعلق بڑے جھوٹ بولنے پر نپے تلے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور ورلڈ اکنامک فورم پر زور دیا کہ انہیں جوابدہ بنانا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے آئے کاروباری اور سیاسی شعبے کی ایلیٹ کلاس سے بھرے ہوئے کمرے میں خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتیرس نے تیل اور تمباکو کمپنیوں کے اقدامات کو ماحولیات کے لیے ایک جیسا تباہ کن قرار دیا جب کہ سگریٹ کمپنیاں منفی اثرات کے باعث بڑے مقدمات کی زد میں ہیں۔

انتونیو گوتیرس نے کہا کہ ہمیں گزشتہ ہفتے معلوم ہوا کہ فوسل فیول پیدا کرنے والی کچھ کمپنیاں 1970 کی دہائی میں ہی اس بات سے پوری طرح واقف تھیں کہ ان کی پیدا کردہ مصنوعات ہمارے سیارے کی حدت بڑھا رہی ہیں۔

وہ ’سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دے رہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایکزوموبل نے موسمیاتی تبدیلی میں فوسل فیول کے کردار پر اپنے ہی سائنسدانوں کی تحقیقات کے نتائج کو مسترد کر دیا۔

انتونیو گوتیرس نے کہا کہ بالکل تمباکو کی صنعت کی طرح، انہوں نے اپنی سائنسی تحقیقات کو نظر انداز کیا، انہوں نے سگریٹ کمپنیوں کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی مصنوعات کے خطرناک اثرات کو پوشیدہ رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تیل کی کچھ بڑی کمپنیوں نے بڑے جھوٹ بولے اور تمباکو کی صنعت کی طرح ان ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔

1998 میں امریکی ریاستوں نے تمباکو کمپنیوں کے خلاف 246 ارب ڈالر کا تاریخی تصفیہ جیتا، اس مقدمے کا مقصد تمباکو نوشی کرنے والے شہریوں پر سگریٹ کے مضر صحت اثرات کے علاج کے اخراجات وصول کرنا تھا۔

ایگزون موبائل پر کی گئی تحقیق سے پتا چلا کہ فرم کے سائنسدانوں نے گلوبل وارمنگ سے متعلق حیرت انگیز طور پر درست پیش گوئی کی تھی کہ کمپنی صرف اگلی 2 دہائیاں ہی موسمیاتی سائنس سے انکار کرتے ہوئے گزارے گی۔

ایگزون موبل امریکا میں متعدد مقدمات کی زد میں ہے۔

سائنس جریدے کی رپورٹ سے متعلق سوال پر ایگزون موبل کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا کہ یہ معاملہ حالیہ برسوں میں کئی مرتبہ سامنے آیا اور ہر بار کمپنی کا جواب تھا کہ جو لوگ اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ کس طرح سے ،ایگزون جاتنی تھی وہ اپنے نتائج اخذ کرنے میں غلط ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کو بڑے چیلنج کا سامنا ہے، شیری رحمٰن

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود اس نے سیلاب جیسی آفات کی تباہ کاریوں کی صورت میں بھاری قیمت ادا کی ہے، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے مشترکہ کوششوں کے ذریعے نمٹنا ہوگا۔

’اے پی پی‘ کی خبر کے مطابق ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر پاکستان کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے جبکہ پاکستان اس سے شدید متاثر ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے سوا تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے، بہت سے علاقے زیر آب ہونے کی وجہ سے 80 لاکھ افراد افراد اب بھی متاثر ہیں، آبادیوں اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، سیلاب سے متاثرہ آبادی کا حجم تین درمیانے سائز کے یورپی ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے کیونکہ یہ صدی کا ریکارڈ سیلاب تھا۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے شکر گزار ہیں جنہوں نے سیلاب متاثرین کی مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کے لئے عالمی مدد اور حمایت کے حصول کے لئے جنیوا کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی ۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جنیوا میں عالمی برادری نے پاکستان کی آواز پر اس کا بھرپور ساتھ دیا جس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کی کوششوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے ، کاپ-27 میں پاکستان کے قائدانہ کردار کی بدولت لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے حوالے سے کوششیں کامیاب ہوئیں، ہماری قیادت نے یہ سب ایک ایسے وقت میں کیا جب ہمارے اپنے ملک میں کلائمیٹ ایمرجنسی تھی اور یہ ایمرجنسی کی صورتحال اب بھی بے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ہمارے لئے تشویش کا معاملہ یہ ہے کہ ایسی صورتحال آئندہ بھی پیدا ہوسکتی ہے ، اس لئے ہم متاثرہ علاقوں میں بحالی و تعمیر نو کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت پیدا کرنے اور ملک کو کلائمیٹ ریزیلیئنٹ بنانے کے لئے بھی کوشاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے سمیت مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں تاہم اس مقصد کے لئے عالمی تعاون سے مشترکہ کوششیں ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہیں ۔

تبصرے (0) بند ہیں